پاک۔ انڈیا سیریز 'موقع' کی منتظر
وہ کہتے ہیں کہ کرکٹ ہمارا مذہب ہے۔ نہ صرف انڈیا میں بلکہ سرحد کی دوسری جانب بھی۔ ہم اپنی ٹیموں پر یکساں مرو یا مرجاﺅ کا پریشر ڈالتے ہیں، اگر وہ جیتے نہیں تو ہم ان کے پتلے جلاتے ہیں اور کئی بار میچ کے بعد ہارٹ اٹیک کے باعث زندگیوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
اس وقت کئی برسوں سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان دوطرفہ کرکٹ روابط نہیں، اتنا وقت جو راہول ڈروڈ کے لیے کوچ بننے، وسیم اکرم کے لیے ایک اور بچے کے باپ بننے اور سچن نہیں ارجن ٹنڈولکر کھیل کے میدان میں اتر آئے۔
بی سی سی آئی اور پی سی بی کی رضامندی کے باوجود مختلف وجوہات کی بناءپر اب بھی ' نو شو' کا امکان ہے۔
یہ ممکنہ طور پر انڈین شہریوں کو ٹوئٹر پر مضحکہ خیز پیغامات پوسٹ کرنے سے بچا لے گا جیسے ' کرکٹرز کو پاکستان بھیج کر عامر خان اور شاہ رخ خان کے پڑوسی بنادیا جائے' (اگرچہ ہم اس بات پر برا نہیں منائیں گے اگر بی سی سی آئی کے چند حکام اس پار چلے جائیں)۔
اسے کرکٹ ڈپلومیسی قرار دینا گیم کو بہت سنجیدہ لینا ہے۔
کرکٹ سیریز نہ تو داﺅد یا حافظ سعید یا سمجھوتہ معاملے کو حل نہیں کرسکے گی اور نہ ہی ان مسائل کو بڑھا سکے گی۔ کچھ چیزیں حکومت پر چھوڑ دینا ہی بہترین ہوتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان متعدد چیزیں مشترکہ ہیں۔ کرکٹ دونوں اطراف کا جزو لازم ہے اور اس سے منسلک ہسٹریائی ردعمل لگ بھگ ایک جیسا ہوتا ہے۔
شعیب اختر کی رواں برس کے شروع میں ورلڈکپ میں اپنی ٹیم کی کارکردگی پر تنقید انڈیا میں نشر ہوئی۔ ہم اسے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہمارا حال بھی ایسا ہی ہے۔
میں اکثر حیران ہوتی ہو کہ آخر پاک ۔ انڈیا سیریز کو کوئی نام کیوں نہیں دیا گیا جبکہ اس میں ایشز کے مقابلے میں زیادہ ڈراما اور رقابت ہوتی ہے۔ سرحد کے دونوں جانب کرکٹ کے پرستاروں کے جذبات اس سے زیادہ حقیقی ہوتے ہیں جیسا کوانٹیکو میں پریانکا چوپڑہ کا لب و لہجہ ہے۔
جو اس کے خلاف بات کرتے ہیں وہ نہ تو میچ کے دن بیمار پڑتے ہیں اور نہ ہی انہیں کسی محفوظ مقام کی تلاش کے لیے پوری رات لگانا پڑتی ہے جہاں وہ اپنے قومی پرچم آخری سیریز کے بعد رکھ سکیں۔
جیسا کہا جاتا ہے جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ جمیا نہیں، میرے پاس کرکٹ کی اصطلاح کے حوالے سے اپنا ورژن ہے، جس نے انڈیا۔ پاکستان موہالی میں نہیں دیکھا وہ اصلی فین نہیں۔
خوشی کی بات ہے کہ مجھے اس کا موقع مل چکا ہے۔
میں نے 2011 میں پنجاب کے شہر موہالی میں پاک۔ انڈیا ورلڈکپ سیمی فائنل میچ دیکھا اور اس تجربے کا موازنہ کسی اور سے نہیں کیا جاسکتا۔ میں اسے رمیز راجا کے انداز میں کہنے کی کوشش کرتی ہوں کہ ' ماحول بہت پرجوش تھا' مگر یہ ایک اہمیت کو گھٹانا ہوگا۔ یہاں تک کہ لارڈز میں کامیابی بھی اس کے قریب تر نہیں۔
بھنگڑا پارٹی اسٹیڈیم سے کئی کلومیٹر دور ہی شروع ہوگئی تھی۔ چہروں کو پینٹ کیا گیا تھا اور پرچم فضاءمیں لہرا رہے تھے،گلیوں میں گانے والے اجنبی آناً فاناً پشت تھپکنے والے ساتھی بن گئے۔
اسٹیڈیم تک پہنچنا بھی آسان نہیں تھا اور صبر کے ساتھ طویل قطار میں کھڑا ہونا ' میڈ ان انڈیا' نہیں تھا۔ ہم سے اوپر لگ بھگ ایک سو چارٹرڈ پروازوں نے مسافروں کو اس دن موہالی پہنچایا۔
یہاں تک کہ ٹاس کے وقت بھی ایک بڑی گونج فضاءمیں ابھری ' چک دے انڈیا'۔ اگر آپ میری طرح پنجابی ہیں تو آپ جانتے ہوں گے کہ سب کچھ کتنا پرشور ہوتا ہے۔ یہ گونج کان پھاڑ دینے والی تھی، موسیقی گرج دار تھی اور مخالفین پر تنقید کے بارے میں بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہت شدید تھی۔