ریویو : رنبیر اور دپیکا کا بے روح 'تماشا'
امتیاز علی کی 'تماشا' کالج کینٹین کے کونے سے نمودار ہوئی ہے جہاں خوابناک آنکھوں والے لڑکے اناڑی پن سے گٹار بجاتے اور ٹوٹی پھوٹی شاعری اس توقع کے ساتھ گاتے ہیں کہ ان کا بلوغت کی جانب ناگزری سفر کچھ دیر کے لیے مزید تھم جائے۔
علی نے اس مقام کو اُس وقت سے حاصل کررکھا ہے جب ان کا ڈیبیو 2005 میں 'سوچا نہ تھا' کے ذریعے ہوا۔ ان کی نئی فلم ایک جذباتی دباﺅ قسم کی ہے جس میں ایک محبت کرنے والے کو بیساکھی کی طرح استعمال کرتے ہوئے آغازِ شباب کی آرزوﺅں کی کہانی بیان کی گئی ہے جسے متعدد فلموں میں دیکھا جاچکا ہے۔
پیچیدہ جذبات کا اظہار سادہ انداز سے کیا گیا، حقیقی محبت ایک بار ہی ہوتی ہے اور ہمیشہ خوبصورتی اور معصوم لوگوں کے درمیان فوٹو جینک مقامات پر ہوتی ہے، جہاں ہر چیز کو الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
اس فارمولے نے 'جب وی میٹ' میں خوبصورتی سے کام کیا جو کہ امتیاز علی کی سب سے بہترین فلم ہے مگر 'تماشا' میں یہ چیز کافی پرانی نظر آتی ہے۔
ویڈ (رنبیر کپور)، تارا (دپیکا پڈوکون) سے فرانسیسی جزیرے کورسیکا میں اس وقت ملتا ہے جب وہ ایسٹریکس کامک سے متاثر ہوکر اور اپنے خاندانی جھگڑوں سے پریشان ہوکر وہاں آتا ہے۔ تارا بھی کورسیکا کا رخ اس لیے کرتی ہے کیونکہ وہ اس کامک بک کی پرستار ہوتی ہے (اس کے پاس اس کامک کی ایک کاپی نظر آنی چاہئے تھی) اور پھر اس جزیرے پر موجود واحد انڈین کی جانب متوجہ ہوجاتی ہے۔
یہ غیر روایتی قسم کے خانہ بدوش اپنے پسندیدہ فلم کے کرداروں کی طرح نظر آنا پسند کرتے ہیں اور اکھٹے مل کر جزیرے کی سیر اور ایک کمرے کو شیئر کرتے ہیں۔
وہ ایک دوسرے کو اپنے نام بھی اس وقت تک نہیں بتاتے جب تک کورسیکا میں ان کے آخری ٹینگو کا وقت نہیں آجاتا، ان کا مشترکہ جذبہ خاندان دوست تھا۔
چار سال بعد تارا اپنی چائے کی سلطنت کو سنبھالنے میں مصروف ہوتی ہے اور دہلی میں ایک بار پھر ویڈ کی جانب بڑھتی ہے۔ کورسیکا میں جو ہوا اسے وہاں ہی چھوڑے، ویڈ ایک قدامت پسند اور جذباتی طور پر کارپوریٹ ڈرون سے کنارہ کش ہوچکا ہوتا ہے۔ تارا نے کورسیکا سے واپسی کے بعد کسی شخص سے تعلق نہیں بڑھایا ہوتا اسی لیے وہ ویڈ کے ساتھ ایک رشتے کا آغاز کرتی ہے جس کا اختتام بہت برے انداز سے ہوتا ہے۔ جہاں سے تماشا آخرکار شروع ہوتا ہے۔
کبھی ختم نہ ہونے والا سفر
اپنی آخری فلم 'ہائی وے' کی طرح امتیاز علی نے زندگی کی فرسودہ روایات کی سرحدوں کو توسیع دینے کی کوشش اپنی ذات کے اندر سفر کے ذریعے کی ہے۔
ویڈ کو انجینیئرنگ اور کارپوریٹ سیلز میں سخت محنت کے لیے زبردستی لایا گیا مگر اس کا دل اسٹیج کے لیے دھڑکتا تھا۔ امتیاز علی کا ایڈیٹنگ اور شوٹنگ کا انداز غیر پیشہ وارانہ ہے اور اچانک و غیر متوقع کٹس کے ذریعے عمر میں اضافے کے معمول کے ڈرامے کو کسی کنارے سے متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس نے کہانی کو کنفیوز کرکے دیکھنے والوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
151 منٹوں پر مبنی اس فلم میں چند ہی سین غیرمعمولی ہیں۔ رنبیر کپور اور دپیکا پڈوکون بہترین جوڑی ہے اور امتیاز علی نے ان کی کیمسٹری کو متعدد لمحات میں بہترین انداز سے دکھایا ہے۔ ریسٹورنٹ کا سیکونس جہاں تارا نے نے ویڈ کی ریزرو طبیعت کو حرکت دی خاص طور پر دیانتدار اور حقیقی لگتا ہے۔
اس لمحے کے ساتھ مناسب انداز سے تسکین دینے والے گانے کو پیش کیا گیا (فلم کی موسیقی اے آر رحمان نے دی جبکہ بول ارشاد کامل نے تحریر کیے)۔ تماشا میں کہنے کے لیے زیادہ گہرائی یا ایسی چیز نہیں جو امتیاز علی پہلے کہہ نہ چکے ہوں۔
پوری فلم بناوٹ اور دنیا پرستی کے گرد ہے جبکہ اس میں غیر انڈین افراد کو بالکل غلط انداز سے پیش کیا گیا ہے۔
پورا کورسیکا بااحترام انداز سے ویڈ اور تارا کی ترنگ کے سامنے سر جھکاتا ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ انہیں مخصوص برصغیر لب و لہجے پر کوئی اعتراض ہے۔ تارا اس وقت مذاق کرنے لگتی ہے جب جاپانی انگلش بولنے لگتا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ فلم میں تمام خراج تحسین تھیٹر کے جادو کو پیش کیا گیا ہے اور یہ رِدھم سے پاک روڈ فلم ہے جبکہ اس کا جذباتی انداز آرٹ فلموں میں پایا جاتا ہے۔
تماشا بنیادی طور پر ایک پرانی روایتی بولی وڈ فلم ہی لگتی ہے۔
یہ مضمون پہلے اسکرول ڈاٹ اِن میں شائع ہوا جہاں سے اجازت کے بعد اسے شائع کیا گیا.