نئے ٹیکس کا مقصد: ’پرتعیش اشیاء کا استعمال محدود کرنا‘
اسلام آباد: حکومت نے پرتعیش اور غیر ضروری اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک ترغینی پیکیج کا اعلان کیا ہے تاکہ آمدنی کے شاٹ فال کو کم کرنے کے لیے ٹیکس چوروں کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جاسکے۔
خیال رہے کہ گذشتہ کچھ ماہ سے پرتعیش منصوعات کی درآمداد میں اضافہ ہوا ہے جس سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار خوش نہیں دیکھائی دیتے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کو فریفنگ کے دوران بتایا ہے کہ پرتعیش مصنوعات کی درآمداد میں اضافہ حکومت کے لئے تشویش کا باعث ہے اور وہ اس پر قابو پانے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کررہے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے آمدنی حاصل کرنے کے لیے ایک تفصیلی پیکج پیش کیا ہے، جسے وزیراعظم کی منظوری حاصل ہوگئی ہے۔
تاہم ایف بی آر کی تجاویز کو کیبنٹ کی اکنامک کورآرڈینیشن کمیٹی (ای سی سی) کی جانب سے منظور کیا جانا لازمی ہے۔
ادھر انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے آمدنی کے شاٹ فال کو کم کرتے ہوئے 40 ارب روپے کی آمدنی حاصل کرنے کے اقدامات کے لیے تجویز پیش کی ہے۔
وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا ہے کہ ای سی سی کی کا اجلاس جعمہ کے روز کے لیے طے تھا لیکن وہ اب ملتوی ہوگیا ہے۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا ہے کہ ایف بی آر کی تجاویز کے مطابق حکومت نے 287 مصنوعات پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جن میں بیشتر مصنوعات کھانے پینے کی ہیں، جن پر 10 سے 15 فیصد جبکہ 14 مصناعات پر 5 سے 10 فیصد، 15 مصناعات پر 15 سے 20 فیصد اور دیگر مصنوعات پر 20 سے 25 فیصد اضافہ کیا جائےگا۔
یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ سگریٹ سمیت دیگر کچھ مصنوعات پر انکم ٹیکس سے چھوٹ ختم کردی جائے گی اور فیڈرل ایکساز ڈیوٹی میں اضافہ کردیا جائے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے مذکورہ فیصلے کی توجیحات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرتعیش مصنوعات کی درآمداد میں بے حد اضافے کے باعث پاکستان کبھی بھی تیل کی کم ہوتی ہوئی قیمتوں کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
انھوں ںے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل اور اجناس کی کم ہوتی ہوئی قیمتوں کے مقابلے میں درآمدی بل میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس ادا نہ کرنے والے تاجروں کو ٹیکس کی حدود میں لانے کے لیے حکومت ’مقرر وقت کی اسکیم‘ کی پیش کش کا ارادہ رکھتی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ نئی اسکیم کے تحت ٹیکس ادا کرنے والے افراد سے نمٹنے کے لیے خصوصی بلاک بنانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ بینک کے کھاتوں کے لین دین پر عائد 0.3 فیصد ود ہولڈننگ ٹیکس کی ادائیگی کی ڈیڈ لائن 30 نومبر تک اختتام پذیر ہورہی ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ اُمید کرتے ہیں کہ اس حوالے سے آئندہ ماہ تاجروں کے ساتھ اتفاق رائے قائم کرتے ہوئے کسی معاہدے پر پہنچ جائے گے۔‘
خیال رہے کہ تاجر برادری کا کہنا ہے کہ ود ہولڈننگ ٹیکس عائد کیے جانے سے ایک کروڑ 20 لاکھ افراد متاثر ہونگے تاہم اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے خوش ہونگے اگر ان میں 40 سے 50 لاکھ افراد ٹیکس کے دائرے میں آجائے گے۔
وزیر خزانہ نے تاجروں کے ساتھ اس حوالے سے اتفاق رائے قائم ہوجانے پر اُمید کا اظہار کیا ہے، کیونکہ وہ اپنی آمدنی کو جائز کرنے کے حوالے سے زیادہ فکر مند ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم تاجروں کو سہولیات دینے اور ان کے مسائل کو سیکٹر کے تحت حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نئے ٹیکس ادا کرنے والے 40 لاکھ افراد کے لیے ایک علیحدہ خصوصی بلاک بنانے کے لیے تیار ہیں۔