نقطہ نظر

موسمیاتی تبدیلیاں : پاکستان شہد کی مکھیوں سے محروم ہونے لگا

بڑھتے درجہ حرارت اور غیر موسمی بارشوں نے پاکستانی مکھیوں کے شہد کے سیزن کو تباہ کردیا۔

خیبر پختونخوا (کے پی)کے ضلع کوہستان کی دور دراز مگر خوبصورت وادی پلاس جانوروں و پھولوں سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ شہد کی مکھیوں کا بھی گھر ہے۔

شہد کا ذخیرہ مقامی آبادی کو روزگار فراہم کرتی ہے مگر گزشتہ چند سالوں سے شہد کی پیداوار میں تیزی سے کمی آئی ہے۔

وادی پلاس کے پچاس سالہ عبداللہ دو سال پہلے تک بطور مزدور اور شہد کی فروخت دونوں کام کررہے تھے۔

پانچ بچوں کے باپ عبداللہ ضلع مانسہرہ میں محنت مزدوری کرکے ماہانہ اوسطآ 14 ہزار 400 روپے کمالیتے تھے. ہر سال مئی سے اکتوبر کے مہینوں میں وہ کوہستان اپنے گھر واپس لوٹتے اور اپنی شہد کی مکھیوں کا کام کرتے۔

ان چار مہینوں کے دوران وہ ایک لاکھ روپے تک کما لیتے جو دیگر ذرائع آمدن کے مقابلے میں دوگنا ہوتا۔ عبداللہ کے والد اور دادا بھی شہد جمع کرنے میں حصہ لیتے اور اسے آیورویدک ماہرین اور روایتی ادویات کے تاجروں کو فروخت کرتے۔

عبداللہ کا خاندان طویل عرصے سے یہ کام کررہا ہے۔ انہوں نے اپنا بچپن جنگلات میں کھیلتے ہوئے گزارا جہاں سے وہ شہد بھی جمع کرتے۔

عبداللہ نے سیکھا کہ کس طرح شہد کو تیزی سے کھینچا جاتا ہے کیونکہ اگرمکھیوں کو خطرے کا احساس ہوجائے تو وہ خود شہد کو چوسنا شروع کردیتی ہیں۔

ابتدائی برسوں میں عبداللہ بہت بڑی مقدار میں شہد جمع کرلیتے تھے اور انہیں یاد ہے کہ 2012 میں وہ ڈیڑھ سو کلو سے زائد شہد فروخت کرنے میں کامیاب رہے تھے، مگر اب شہد کی سپلائی میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔

جنگلات اور مکھیوں کی کمی

قدرتی شہد کی پیداوار میں کمی کی ایک وجہ علاقے میں جنگلات کی تیزی سے کٹائی ہے۔ عبداللہ نے اپنی آنکھوں سے جنگلات کو سکڑتے دیکھا ہے۔' وہ درخت جہاں سے میں ایک سال قبل شہد جمع کرتا ہوں، وہ اگلے برس نہیں ہوتا۔ ایسا گزشتہ دس، پندرہ برسوں سے ہورہا ہے اور اس کی وجہ سے ہر گزرتے سال کے ساتھ شہد کے ذخیرہ کی مقدار کم آئی ہے'۔

ایک طرف جنگلات کی کٹائی شہد کی پیداوار میں کمی کا باعث بنی تو وہیں دوسری جانب گزشتہ چند برسوں کے دوران بے موسمی بارشوں نے پیداوار کو مکمل تباہ کردیا۔ بارشوں نے پھولوں کے کھلنے کے عمل قتل کردیا جہاں سے مکھیاں رس حاصل کرکے شہد بناتی تھیں۔

اس رجحان نے ان لوگوں کو بھی متاثر کیا جو گھروں میں مکھیاں پالتے ہیں، جیسے سربلند قریشی نامی ایک مقامی کاشتکار ان کے یہاں بھی شہد کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔' کچھ سال قبل شہد کے سیزن میں میرے تمام ڈبے شہد سے بھرے ہوتے تھے اور میرے پاس 80 سے 120 کلو شہد جمع ہوجاتا، مگر اس سال صرف پانچ کلو شہد ہی ایک ڈبے سے حاصل کرسکا جبکہ دیگر خالی رہے'۔

کم پیداوار، بڑھتی قیمتیں

اس سب کے نتیجے میں پاکستان میں شہد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جنگلی شہد جو عام طور پر 1400 سے 1600 روپے فی کلو میں دستیاب ہوتا تھا، اب 2200 سے 2600 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔

گھریلو فارم میں تیار کردہ شہد کی قیمتیں پہلے اگر 800 سے 1200 فی کلو تھیں تو اب وہ 1400 سے 1800 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہیں۔

کشمیر اور گلگت بلتستان میں سرگرم ایک این جی او ہاشو فاﺅنڈیشن پاکستان کے پراجیکٹ منیجر کلیم اللہ نے شہد کی پیداوار میں 40 فیصد تک کمی آنے کی تصدیق کرتے ہوئے واضح کیا کہ ماحولیاتی نظام میں اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مسکن اور حیاتیاتی تنوع میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ کیمیکلز اور کیڑے مار ادویات کے بڑھتے استعمال نے ہندوکش ہمالیہ کے خطے میں شہد کی مکھیوں کی تعداد کو تیزی سے کم کیا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان دنیا کا تنہا ملک نہیں جہاں 2006 کے بعد سے شہد کی مکھیوں کی آبادی کو کمی کا سامنا ہے۔ نوے فیصد پودے جن کے تخم اور نسل بڑھانے کا انحصار مکھیوں پر ہوتا ہے، وہ بھی شہد کی پیداوار سے ہٹ کر شہد کی مکھیوں کی آبادی میں کمی سے متاثر ہوئے ہیں۔ چین میں کچھ کاشتکار دستی تخم والے پودے لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت زیادہ فکرمندی شہد کی پیدوار میں کمی کے حوالے سے ہے۔ پاکستان بی کیپرز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک بھر میں شہد کی مکھیوں کے 35 ہزار فارمز ہیں۔ رواں سیزن حالیہ تاریخ میں سب سے بدترین رہا ہے۔

ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل شیر اعظم بتاتے ہیں کہ دو چیزوں نے شہد کی پیدوار کو بہت نقصان پہنچایا۔ ایک: شہد کی مکھیوں کو خوراک فراہم کرنے والے بیری کے درختوں کی غیرقانونی اور بلاروک ٹوک کٹائی اور دوسرا: بارشیں ہیں۔

پاکستان جو شہد کو برآمد کرنے کے حوالے سے نمایاں حیثیت حاصل کرچکا تھا، اب آرڈرز منسوخ کرنے پر مجبور ہے کیونکہ وہ انہیں پورا کرنے سے قاصر ہے۔

نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر (این اے آر سی) کے ڈاکٹر راشد حسین وضاحت کرتے ہیں 'پاکستان میں مکھیوں کی تین اقسام اپیس دورستا، اپیس کریانا اور اپیس فلوری (جو جنگلی مکھیوں کے نام بھی جانی جاتی ہیں) موجود ہیں. ان میں سے بیشتر پاکستان میں ہمالیہ کے خطے میں پائی جاتی ہیں'۔

یہ پہلے سے نسل کی بقاءکے خطرے سے دوچار جانداروں میں شامل ہیں اور اب ان میں مزید کمی آئی ہے۔ ڈاکٹر حسین بتاتے ہیں کہ متعدد عناصر اس کمی کا باعث بنے ہیں مگر سب سے اہم موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔

1990 کی دہائی میں بیری ۔ شہد کا سیزن اگست کے وسط سے اکتوبر کے وسط تک ہوتا تھا کیونکہ اس عرصے کے دوران بیری کے درختوں میں پھول اگتے تھے۔ مگر موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث درجہ حرارت میں تبدیلی سے رواں سیزن یہ دورانیہ محض ایک ماہ یعنی ستمبر کے وسط سے اکتوبر کے وسط تک محدود ہوگیا۔

اگر اس سیزن میں بھی بارشوں نے مداخلت کی تو مکھیوں کے پاس کہیں اور جانے کی گنجائش نہیں۔

نوٹ: یہ مضمون سب سے پہلے دی تھرڈ پول میں شائع ہوا اور ڈان پر اسے اجازت کے بعد شائع کیا جارہا ہے.

محمد زبیر خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔