پاکستان

جسٹس فیصل عرب کی ترقی، مشرف ٹرائل پر سوالیہ نشان

بطور سپریم کورٹ جج جسٹس فیصل عرب کی ترقی نے غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا.

اسلام آباد: سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس فیصل عرب کی بطور سپریم کوٹ جج ترقی نے، سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کے حوالے سے قائم خصوصی عدالت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا۔

جسٹس فیصل عرب، جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کرنے والی 3 رکنی خصوصی عدالت کی سربراہی کر رہے تھے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس میں جسٹس فیصل عرب کو سپریم کورٹ کا جج بنائے جانے کی منظوری دی گئی۔

اجلاس میں جسٹس سجاد علی شاہ کو سندھ ہائی کورٹ کا نیا چیف جسٹس بنانے کی بھی منظوری دی گئی، جبکہ اجلاس میں وفاقی وزیر قانون پرویز رشید اور اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ بھی شریک تھے۔

جسٹس فیصل عرب کو سپریم کورٹ کا جج بنائے جانے کے فیصلے نے قانونی ماہرین کی آرا کو بھی اس حوالے سے تقسیم کردیا ہے کہ اب آیا وہی عدالتی ٹربیونل غداری کیس کی سماعت کرے گا، یا کیس کی شنوائی کے لیے کوئی نیا فورم تشکیل دیا جائے گا۔

بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ یہ ایک دلچسپ مگر پیچیدہ صورتحال ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ حکومت کو اب اس 3 رکنی خصوصی بینچ کی آئینی حیثیت پرکھنی ہوگی اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا پرویز مشرف کے خلاف کیس کی نئے سرے سے سماعت شروع کرنی چاہیے یا نہیں۔

واضح رہے کہ سابق وفاقی حکومت کی جانب سے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ 1976 کے سیکشن 4 کے تحت 19 نومبر 2013 کو 3 رکنی خصوصی عدالت کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔

غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت کے قیام کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ کسی بھی عدالت کو کسی انفرادی شخص کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کا خصوصی اختیار نہیں ہے۔

خیال رہے کہ جسٹس فیصل عرب کے علاوہ 3 رکنی خصوصی عدالتی بینچ میں بلوچستان ہائی کورٹ کی جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس یاور علی شامل تھے۔

سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کی رائے میں خصوصی عدالت غیر فعال ہوچکی ہے اور اس کے دوبارہ قیام کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب پرویز مشرف کی قانونی ٹیم کے سابق رکن چوہدری فیصل حسین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 11 نومبر کے فیصلے میں حکومت کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس کیس کی نئے سرے سے تفتیش کا آغاز کرے، جس کے بعد حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ معاملے کو دوبارہ تفتیشی ایجنسی کو بھیجے، اس لیے خصوصی عدالت کی افادیت پہلے ہی ختم ہوچکی ہے۔