'معذور ہوں لیکن محتاج نہیں'
کابل: انسان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا چاہیے، یہ جملے ہم اکثر سنتے ہیں اور انہیں سچ ثابت کیا ہے کہ کابل کی طاہرہ یوسفی نے، جو ہاتھ اور پاؤں سے معذور ہونے کے باوجود ہمت و جرات کی اعلیٰ مثال ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل کی رہائشی 29 سالہ طاہرہ یوسفی غور سے نیلے برقع میں موجود خاتون بھکاری کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی اگر اس نے ہمت نہ کی ہوتی تو شائد آج وہ بھی بھیک مانگ رہی ہوتی۔
طاہرہ اس وقت نوجوان تھی جب افغان طالبان اور احمد شاہ مسعود کی فوج کے درمیان خونریز لڑائیوں نے اس کی طرح کئی لوگوں کو اپاہج اور یتیم بنا دیا۔
طاہرہ 1998 کے اس دردناک دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہ کمبل اوڑھے اپنے گھر کی کھڑکی کے ساتھ بیٹھی باہر کا نظارہ کر رہی تھی کہ اچانک انہیں زور دار آواز سنائی دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک راکٹ ان کے گھر آگرا جس کے نتیجے میں ان کے والدین اور بڑے بھائی ہلاک ہوگئے، جبکہ طاہرہ نے اپنا دائیاں ہاتھ اور بائیں ٹانگ کھودی۔
اس ناقابل فراموش واقعے کے بعد طاہرہ اور ان کی دو چھوٹی بہنوں نے دوبارہ سے زندگی کو جینے کی کوشش کی لیکن اتنا سب کچھ کھونے کے بعد ان کے لیے یہ آسان نہ تھا۔
ابتدا میں طاہرہ کا خیال تھا کہ وہ اپنے اہلخانہ کی مدد سے اپنی معذوری پر قابو پالے گی، لیکن جب انہیں یہ پتہ چلا کہ اس واقعے میں ان کے والدین اور بڑا بھائی چل بسے ہیں تو شدید مایوسی نے انہیں آگھیرا۔
طاہرہ نے کہا کہ جب وہ ہسپتال میں داخل تھیں تو انہیں ان کے کزن نے آکر بتایا کہ وہ ابھی ان کے والین اور بھائی کی نماز جنازہ سے ہوکر آرہے ہیں۔
یہ سن طاہرہ کو اندازہ ہوا ان کی زندگی کس حد تک بدل چکی ہے۔
ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد طاہرہ کے ماموں نے ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھائی اور مصنوعی اعضا لگ جانے کے بعد 15 سال کی عمر میں انہوں نے طاہرہ کا اسکول میں داخلہ کرادیا۔
طاہرہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے صرف یہ سوچ کر اسکول جانے کے حامی بھری کہ اس سے ان کا دھیان بٹے گا اور وہ زندگی میں واپس لوٹ سکیں گی، لیکن جب انہوں نے اسکول جانا شروع کیا تو کوئی لڑکی ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہ تھی اور وہ جب بھی ان سے دوستی کرنے کی کوشش کرتیں، ساتھ پڑھنے والی لڑکیاں وہاں سے اٹھ کر چلی جاتیں۔
اس صورتحال میں طاہرہ کی ٹیچر نے ان کی ہمت بڑھائی اور انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔
طاہرہ بتاتی ہیں کہ ان کی ٹیچر کہتی تھی کہ تم اپنی محنت اور لگن سے سب کو ثابت کرو کہ تم بھلے ہاتھ پاؤں سے معذور ہو لیکن تمھاری سوچ اور ذہن معذور نہیں ہے۔
طاہرہ کا کہنا ہے کہ ٹیچر کے ان الفاظ نے انہیں نیا جوش و ولولہ دیا اور اس دن کے بعد سے اسکول کے اساتذہ ان کے لیے مشعل راہ بن گئے۔
وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے اساتذہ کو دیکھ کر سوچتی تھی کہ ایک دن میں بھی ان کے جیسا یونیفارم پہنوں گی۔
کئی سالوں کی محنت کے بعد طاہرہ کا خواب سچ ثابت ہوا اور 2013 میں انہوں نے اپنا گریجوایشن مکمل کرلیا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد طاہرہ جدو جہد کرکے ایک اسکول میں بطور استاد نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور کسی کا بھی احسان لینے سے گریز کیا۔
طاہرہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں یہی سیکھا ہے کہ کبھی کسی کا محتاج نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی حکومت سمیت کسی سے مدد کی امید کرنی چاہیے۔
طاہرہ بتاتی ہیں کہ ماموں کے انتقال انہوں نے اپنی بہنوں کے ہمراہ اپنے کزن رمضان کے گھر رہائش اختیار کرلی، لیکن کزن کی اہلیہ کی جانب سے انہیں کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا گیا۔
ایسی صورتحال میں تینوں بہنوں نے تھوڑے تھوڑے کرکے پیسے جمع کرنا شروع اور ایک چھوٹا پلاٹ خرید لیا جس پر انہوں نے بعد ازاں ناروے کی پناہ گزین کونسل کے تعاون سے گھر تعمیر کیا۔
طاہرہ کہتی ہیں کہ اب وہ ان جیسی دوسری لڑکیوں کے لیے رول ماڈل بننا چاہتی ہیں اور انہیں بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیشہ دوسروں کے بجائے خود پر انحصار کرنا چاہیے نہ کہ دوسروں کا محتاج بنا جائے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کی کلاس میں ایک لڑکی کی آنکھ میں مسئلہ ہے، اس لڑکی کو دیکھ کر انہیں اپنا بچپن یاد آجاتا تھا لہٰذا ایک دن انہوں نے اس سے وہی جو ان کی ٹیچر نے ان سے کہا تھا کہ، جب بھی تمھیں کوئی مسئلہ ہو تو میرے پاس آجانا۔