'جب تک آخری کتا نہیں مرجاتا'
ایک آوارہ کتے کو مرنے میں دس منٹ لگتے ہیں۔ اب چاہے اسے زہر دیا گیا ہو، دم گھونٹا جائے یا کسی اور طریقے سے دردناک موت دی جائے۔ کراچی کی بلدیاتی انتظامیہ کے حکام کا ماننا ہے کہ آوارہ کتوں کو زہر دینا ہی شہر میں اس جانور کی آبادی کم کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے مگر کتے کے دانتوں کا شکار بننے والے گارڈن کے علاقے کے رہائشی ظفر مشتاق کے خیال میں یہ کاٹنے پر نامناسب ردعمل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ "کوئی بھی جاندار اس انداز سے مرنے کا مستحق نہیں. کاٹے جانے کے بعد مجھے شدید تکلیف کا سامنا ہوا مگر پھر بھی میں یہ منظر برداشت نہیں کرسکتا کہ کسی کتے کا تعاقب کر کے اسے کونے میں گھیر کر زہر آلود چھرے کھلائیں جائیں۔ آخر انہیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتا ریبیز لیے گھوم رہا ہے؟"
ظفر مشتاق گزشتہ ماہ بس اسٹاپ سے پیدل اپنے گھر جارہے تھے کہ جب ایک آوارہ کتے نے ان کا پیچھا کیا اور ان کی پنڈلی پر کاٹ لیا۔ اب بیساکھی کے سہارے لنگڑا کر چلنے والے ظفر مشتاق کتے کے کاٹنے کے بعد تیزی سے قریبی ہسپتال پہنچے اور ریبیز سے بچاﺅ کے احتیاطی ٹیکے لگوائے۔ وہ بتاتے ہیں "ایک ٹیکے کی قیمت 1200 روپے تھی اور میں تین بار ہسپتال گیا جہاں مجھے ان ٹیکوں کا انتظام کرنا پڑا۔"
ضلعی بلدیاتی کارپوریشن شرقی (ڈی ایم سی ایسٹ) کے ایک سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا "زہر آلود چھرے کھانے جانے کے بعد کتے کے معدے میں جا کر پھٹ جاتے ہیں. ٹاﺅن انتظامیہ اس سرگرمی کو ہر ہفتے میں ایک بار کرتی ہے۔"
کراچی میں آوارہ کتوں کو مارا جانا صرف ایک علاقے تک محدود نہیں، بلکہ شہر کی سطح پر جاری سرگرمی ہے. کراچی یونیورسٹی کے اندر آوارہ کتوں کے خلاف "کامیاب آپریشن" کی خبریں بھی سامنے آتی ہیں۔ مثبت اور منفی دونوں طرح کی کوریج سے متاثر ہو کر دیگر ٹاﺅنز کی انتظامیہ بھی اس پر عمل کرتی ہے۔
ڈی ایم سی شرقی کے عہدیدار نے بتایا "ایک کلو زہریلے چھروں کی لاگت ایک لاکھ 70 ہزار سے ایک لاکھ 80 ہزار فی کلو ہوتی ہے جنہیں فرانس سے درآمد کیا جاتا ہے۔ ٹاﺅنز کو پورے ایک کلو کی ضرورت نہیں ہوتی، کئی بار ہمارا کوٹہ آدھا کلو بھی ہوتا ہے۔ ان سب کو بھی ایک بار ہی استعمال نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی خریداری پر ہمارے دو سے تین ماہ لگ جاتے ہیں"۔