پاکستان

قرآن پاک کی 'بے حرمتی' ، جہلم میں فوج طلب

جی ٹی روڈ کے قریب مبینہ طور پر قرآن پاک کے مقدس اوراق نذرآتش کرنے کے الزام میں ایک چپ بورڈ فیکٹری کو آگ لگا دی گئی.

جہلم: صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں مبینہ طور پر قرآن پاک کے مقدس اوراق نذر آتش کرنے پر شہر میں حالت کشیدہ ہو گئے جبکہ امن و امان کے قیام کے لیے فوج طلب کر لی گئی.

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جہلم میں امن وامان کی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے فوج تعینات کرنے کا حکم دیا.

نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق جی ٹی روڈ کے قریب اسمال انڈسٹریل اسٹیٹ کے عقب میں واقع ایک چِپ بورڈ بنانے والی فیکٹری میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کی خبر گردش کر رہی تھی.

قرآن پاک کے مقدس اوراق نذر آتش کرنے کی اطلاع پر ایک فیکٹری کو آگ لگا دی گئی.

پولیس کی جانب سے واقعے میں ملوث ہونے کے شبہ میں 5 افراد کو حراست میں لیا گیا، جن میں سے 4 کو بعدازاں رہا کردیا گیا.

سینیئر پولیس افسر عدنان ملک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں فیکٹری کے سیکیورٹی ہیڈ قمر احمد طاہر کو گرفتار کرلیا گیا.

پولیس کے مطابق فیکٹری کے ایک ملازم نے بتایا کہ ملزم طاہر نے فیکٹری کے بوائلر میں قرآن پاک کے اوراق نذر آتش کرنے کی نگرانی کی اور اس حرکت کو روکے جانے پر مداخلت بھی کی.

پولیس کے مطابق ملزم طاہر کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا.

پولیس کا کہن تھا کہ ملزم کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے.

دوسری جانب مقامی احمدی کمیونٹی کے ترجمان سلیم الدین نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی کمیونٹی کے 3 افراد کو حالیہ واقعے کے تناظر میں گرفتار کیا گیا.

ترجمان کا کہنا تھا کہ ان افراد کو پولیس نے مبینہ طور پر قرآن پاک کے اوراق نذر آتش کرنے کے الزام میں گرفتار کیا.

واقعے کے بعد لاؤڈ اسپیکر پر مساجد سے اعلان کرائے گئے اور اطراف کے 4، 5 گاؤں کے لوگ ایک ہجوم کی صورت میں جمع ہوگئے اور انھوں نے مذکورہ فیکٹری اور اس سے ملحق فیکٹری مالک کے گھر کو بھی آگ لگا دی.

تاہم فیکٹری مالک اور دیگر ملازمین فیکٹری سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے.

مشتعل ہجوم نے پولیس کے خلاف نعرہ بازی بھی کی اور جی ٹی روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا.

مشتعل ہجوم نے چپ بورڈ فیکٹری کو آگ لگا دی—۔فوٹو/ عامر کیانی

ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس جائے وقوع پر پہنچی، اس دوران پولیس اور مشتعل افراد کے درمیان جھڑہیں بھی ہوئیں.

پولیس کی جانب سے ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیلز فائر کیے گئے جبکہ مشتعل افراد کی جانب سے بھی ہوائی فائرنگ کی گئی، اس دوران 3 افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں، تاہم نفری کم ہونے کی وجہ سے پولیس حالات پر قابو پانے میں ناکام رہی.

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) مجاہد اکبر خان موقع پر پہنچے تاہم مشتعل ہجوم سے مذاکرات میں ناکام رہے.

بعد ازاں فوج کو طلب کیا گیا اور تقریباً 6 گھنٹے بعد جی ٹی روڈ کو ٹریفک کے لیے بحال کردیا گیا، جبکہ راولپنڈی اور دیگر اضلاع سے بھی پولیس کی نفری کو علاقے میں تعینات کردیا گیا.

تاہم دن میں مشتعل افراد کی جانب سے جہلم کے علاقے کالا گجراں میں احمدی کمیونٹی کے ایک عبادت خانے کو نذرِ آتش کیے جانے کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی اور فوج کو دوبارہ سے طلب کر لیا گیا.

اس دوران پولیس نے مظایرین پر آنسو گیس کا استعمال کی جبکہ مظاہرین کے پتھراؤ سے پولیس ایک مرتبہ جائے وقوع سے پیچھے ہٹی.

مظاہرین ٹولیوں کی شکل میں جوق در جوق کالا گجراں آ رہے تھے.

جہلم کے علاقہ محمود آباد میں سیکڑوں افراد پر مشتمل احمدیوں کی آبادی ہے، کشیدگی کے باعث وہاں سکول بند کر دیئے گیے.