پاکستان

’پاکستان میں تیل، گیس کے ذخائر کئی گنا زیادہ‘

پاکستان میں 10 ہزار 159 ٹریلین کیوبک فٹ قدرتی گیس اور 2 اعشاریہ 3 ٹریلین بیرلز تیل کے ذخائر موجود ہیں، وزیر پیٹرولیم

اسلام آباد: پاکستان کے چٹانی علاقوں میں 10 ہزار 159 ٹریلین کیوبک فٹ قدرتی گیس اور 2 اعشاریہ 3 ٹریلین بیرلز تیل کا انکشاف ہوا ہے جن سے 200 ٹریلین کیوبک فٹ گیس اور 58 ارب بیرل تیل نکالا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں موجود قدرتی ذخائر سے اس وقت صرف 20 ٹریلین کیوبک فٹ گیس اور 385 ملین بیرل تیل نکالا جارہا ہے۔

یہ بات وفاقی وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے پاکستان میں شیل گیس کے حوالے سے کیے گئے حالیہ مطالعہ کے نتائج کے حوالے سے پریس کانفرنس کے دوران بتائی۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس مطالعے کے نتائج کے مطابق پاکستان میں شیل گیس اور تیل کے ذخائر، یونائیٹڈ اسٹیٹس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (یو ایس ای آئی اے) کے تخمینہ لگائے گئے ذخائر سے کئی گناہ زیادہ ہیں، جبکہ ملک میں ان ذخائر کو نکالنے کے لیے ٹیکنالوجی بھی دستیاب ہے۔

انہوں نے کہا کہ یو ایس ای آئی اے کی اپریل 2011 کی رپورٹ میں زیریں سندھ طاس میں شیل گیس کا 206 ٹی سی ایف کا ذخیرہ بتایا گیا جس میں سے 51 ٹی سی ایف گیس نکالی جاسکتی تھی۔

تاہم جون 2013 میں یو ایس ای آئی اے کے نظرثانی شدہ تخمینے میں شیل گیس کا ذخیرہ 586 ٹی سی ایف بتایا گیا جس میں سے 105 ٹی سی ایف گیس نکالی جاسکتی تھی، جبکہ 227 ارب بیرل تیل کے ذخائر میں سے 9 ارب 10 کروڑ بیرل تیل نکالا جاسکتا تھا۔

وفاقی وزیر پیٹرولیم نے بتایا کہ ملک میں قدرتی وسائل کی تلاش کے لیے یہ مطالعہ جنوری 2014 میں یو ایس ایڈ کے تعاون سے شروع کیا گیا جو رواں ماہ مکمل ہوا اور اس میں تیل و گیس کے مذکورہ ذخائر کی تصدیق ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ نتائج مرتب کرنے کے لئے ایک ہزار 611 کنوؤں کا ڈیٹا حاصل کیا گیا اور ایک ہزار 312 کنوؤں کی کھدائی عمل میں لائی گئی اور یہ مطالعہ وسطی اور زیریں سندھ طاس میں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں سے حاصل ہونے والے نمونے امریکی ریاست ہیوسٹن کی نیو ٹیک لیبارٹری میں بھجوا دیئے گئے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ زیر زمین ان ذخائر کو نکالنے کے لیے پاکستان میں ٹیکنالوجی موجود ہے، تاہم بڑے پیمانے پر ان ذخائر کو نکالنے کے لیے مزید ٹیکنالوجی درکار ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان ذخائر کو نکالنے کے لیے ماحولیاتی مسائل، پانی کی دستیابی اور ڈرلنگ کے لیے پیسوں کی ضرورت جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔