نقطہ نظر

پاکستان میں پاسپورٹ کی تجدید کا تلخ تجربہ

بسا اوقات پاسپورٹ آفس میں آپ سے وہ دستاویزات بھی طلب کر لی جاتی ہیں جن کے بارے میں آپ کو پہلے سے نہیں بتایا جاتا۔

گذشتہ سال میرے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہوئی تو میں نے پاسپورٹ آفس جانے اور طویل خواری کا سوچ کر پاسپورٹ کی تجدید کروانے کا خیال ذہن سے جھٹک دیا۔

مگر پی ایچ ڈی کے طالبعلم کی حیثیت سے مجھے بیرونِ ملک کم از کم ایک ریسرچ پیپر شائع کرنا تھا۔ خوش قسمتی سے میرا پیپر امریکا کے شہر سان فرانسسکو کی ایک کانفرنس کے لیے منظور ہوگیا۔ اب مجھے پاسپورٹ کی تجدید بہرحال کروانی ہی تھی۔

پھر ایک منگل کے دن میں نے آخر کار مرکزی پاسپورٹ دفتر جانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ میں صبح 8:30 پر وہاں پہنچا، اور جب میں دفتر کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک درجن لوگوں نے مجھے گھیر لیا جو میرے پاسپورٹ کی تجدید میں میری 'مدد' کرنے کی پیشکش کر رہے تھے۔

ایجنٹس سے ملیے

انہیں عام طور پر ایجنٹ کہا جاتا ہے، اور اپنے ہاتھوں میں بینک چالان اٹھائے ہوئے یہ لوگ آپ کو خواری سے بچانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ ایک قیمت پر۔

وہ 15 منٹ میں درخواست جمع کروانے اور پاسپورٹ گھر پہنچانے کی گارنٹی دیتے ہیں۔ پیشکش اتنی اچھی تھی کہ حقیقی ہو ہی نہیں سکتی تھی، اس لیے میں نے ان کی کسی بھی بات پر توجہ نہیں دی اور سیدھا اندر چلا گیا۔

اندر چار بے ہنگم سی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا کروں یا کہاں سے شروع کروں۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر معلوماتی کاؤنٹر تلاش کرنے میں ناکام رہا۔

خوش قسمتی سے مجھے اپنا ایک ساتھی دکھائی دیا جو پاسپورٹ کی تجدید کے لیے ہی وہاں آیا ہوا تھا۔ اس نے پورا مرحلہ سمجھاتے ہوئے مجھے کہا کہ میں شارعِ فیصل پر عوامی مرکز برانچ میں جاؤں، جو میرے رہائشی علاقے کے لوگوں کے لیے ہے۔ اس نے کہا کہ "وہاں یہاں جتنا رش بھی نہیں ہوگا۔"

لیکن اس نے ایک بات بتائی کہ "وہاں کبھی کبھی لنک ڈاؤن ہوجاتا ہے۔"

میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور فوراً ریجنل آفس پہنچ گیا۔ ایک بار پھر ڈھیروں ایجنٹس نے مجھے گھیر لیا، اور میں ایک بار پھر انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اندر چلا گیا۔ یہ دفتر پچھلے دفتر سے واضح طور پر بہتر تھا۔

وہاں پر ایک معلوماتی کاؤنٹر بھی تھا۔ ڈیسک پر بیٹھے ہوئے شخص نے مجھے بتایا کہ مجھے بینک میں فیس جمع کروانی ہوگی، اور اس کے ساتھ زائد المیعاد پاسپورٹ، اصلی شناختی کارڈ، اور ان کی نقول چاہیے ہوں گی۔ بینک کی برانچ عوامی مرکز نامی اس عمارت کی دوسری منزل پر تھی۔ میں گیا، فیس جمع کروائی، اور واپس آیا تو ایسی قطار میری منتظر تھی جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

لمبا انتظار

10:30 بج رہے تھے اور مجھے یونیورسٹی جانا تھا اس لیے میں نے دوبارہ آنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے دن صبح 9:30 بجے میں ایک بار پھر ٹوکن کے لیے قطار میں کھڑا ہوا تھا۔ قطار اتنی لمبی تھی کہ وہ دفتر سے باہر گلی تک پہنچی ہوئی تھی اور لوگ دھوپ میں کھڑے ہونے پر مجبور تھے۔

انتظار کرتے ہوئے میں نے وقت گزاری کے لیے لوگوں سے بات چیت شروع کر دی۔ ان کی باتوں نے مجھے پریشان کر دیا۔ ایک شخص، جو ایک بینک میں سینیئر مینیجر ہیں، نے مجھے بتایا کہ جب وہ آخری دفعہ یہاں آئے تھے، تو وہ تمام مطلوبہ دستاویزات ساتھ لے کر آئے تھے لیکن جب وہ آخری کاؤنٹر پر پہنچے تو ان سے ان کے والدین کے اصل شناختی کارڈ طلب کیے گئے۔

ایک دوسرے شخص نے مجھے بتایا کہ اس سے میٹرک کا سرٹیفکیٹ طلب کیا گیا تھا۔ ایک اور شخص نے بتایا کہ اس سے بجلی کا تازہ ترین بل مانگا گیا، اور ان سب ہی لوگوں سے کہا گیا کہ بغیر ان دستاویزات کے ان کا کام نہیں ہو سکتا۔

جب میں نے کہا کہ معلوماتی کاؤنٹر نے تو ان میں سے کسی دستاویز کے لیے نہیں کہا، تو وہ میری معصومیت پر مسکرانے لگے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ کہیں اگر آخری کاؤنٹر پر کسی بھی دستاویز کی غیر موجودگی کا جواز دے کر میرا کام ٹرخا دیا گیا تو؟

قطار کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھتی گئی، اور آخرکار میں دھوپ سے نکل کر سائے میں پہنچ گیا۔ اچانک سر کے اوپر گرم ہوا محسوس ہوئی۔ دیکھا تو دو اے سی ہیٹر گرم ہوا پھینک رہے تھے۔

آگے بڑھنے پر میں نے ایک سکیورٹی گارڈ کو دیکھا جو قطار کو سیدھا رکھنے کی پوری کوشش کر رہا تھا اور قطار سے باہر نکل کر کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ میں گارڈ کو اس کے لیے سلام پیش کرتا ہوں۔ کئی لوگ سفارشیں لے کر آئے لیکن اس نے کسی کو اندر نہیں جانے دیا۔

آخرکار قطار دفتر کے اندر پہنچ گئی۔ اندر صرف دو کاؤنٹر تھے، ایک مردوں کے لیے اور ایک عورتوں کے لیے۔ لیکن پھر میں نے دیکھا کہ ایک تیسرا کاؤنٹر بھی تھا جو ٹوکن کے لیے تھا۔ میں ایک گھنٹے سے قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا مگر چند لوگ ایسے بھی تھے جو باہر جانے والے دروازے سے ایجنٹس کے ساتھ اندر آتے اور قطار میں کھڑے ہوئے بغیر اپنا کام کروا کر نکل جاتے۔

اب ہم سب کو غصہ آگیا۔ مسلسل اس حرکت کی وجہ سے ہماری باری آنے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ میرے پیچھے موجود شخص نے چلانا شروع کر دیا۔ ہم نے بھی اس کا ساتھ دیا اور فوراً اسسٹنٹ ڈائریکٹر 'صاحب' آئے اور ہمیں ٹھنڈا کیا۔ انہوں نے ٹوکن والے شخص کو بھی 'ڈانٹا'۔

دو گھنٹے قطار میں لگے رہنے کے بعد مجھے ٹوکن ملا۔ میں نے تصویریں کھنچوائیں اور انگلیوں کے نشانات دیے، اور پھر ڈیٹا اینٹری کے لیے گیا۔ ٹوکن کاؤنٹر اور ڈیٹا اینٹری کاؤنٹر کے درمیان اتنی کم جگہ تھی کہ آپ صرف کاؤنٹر کی سائیڈ پر کھڑے ہو سکتے تھے۔ مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے سب ہی سانس لینے میں مشکل محسوس کر رہے تھے کیونکہ اے سی بمشکل چل رہے تھے۔

یہ ایک بہت تھکا دینے والا اور ناخوشگوار تجربہ تھا۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے ایک کونے میں لگی ہوئی ننھی سی ٹی وی اسکرین پر چل رہے کرکٹ میچ میں دلچسپی لینے کی کوشش کی تاکہ آس پاس کے اس ماحول کو نظرانداز کیا جا سکے۔

سب سے زیادہ خوفناک الفاظ

جب مجھے لگا کہ اس سے زیادہ خراب صورتحال تو کچھ نہیں ہوسکتی، اچانک کوئی چلایا:

"لنک ڈاؤن!"

اس کا مطلب تھا کہ اب کام نہیں ہو سکتا۔ ہم لوگ دم گھٹے ہوئے کھڑے تھے جبکہ اسٹاف آرام سے چائے منگوا کر کرکٹ میچ دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک بار یونیورسٹی کے ایک ساتھی سے پاسپورٹ کی تجدید کے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے ایجنٹ کے ذریعے کام کروایا تھا۔

دلچسپ بات ہے کہ ایجنٹ نے اسے کہا تھا "سر جی جلدی کریں، لنک ڈاؤن ہونے کا ٹائم ہو گیا ہے۔"

تب ہی مجھے سمجھ آیا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ اس کے بعد 40 منٹ گزر گئے اور لوگوں میں اشتعال پھیلنا شروع ہو گیا۔

12:15 بجے تک مجھے لگا کہ میرا کام اس دن نہیں ہوگا۔ کچھ ہی دیر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے اعلان کیا کہ وہ صرف پاسپورٹ کی تجدید کی درخواستیں قبول کریں گے اور دوسرے کام اب نہیں ہو سکتے۔

یہ میری خوش قسمتی تھی۔

انہوں نے میرا ٹوکن لیا اور مجھے اور میرے دوستوں کو ایک ایک کر کے بلایا۔ 5 منٹ میں میری باری آگئی۔

اس کے بعد وہ آخری کاؤنٹر آیا جس کا مجھے ڈر تھا۔ جب میں کاؤنٹر کی جانب بڑھا تو میں نے ان پریشان اور غصے میں بھرے ہوئے چہروں کو دیکھا جو "لنک اپ ہو گیا ہے" سننے کے لیے بے تاب تھے۔

آخری کاؤنٹر پر 'اسسٹنٹ ڈائریکٹر' کی تختی لگی ہوئی تھی۔ ڈائریکٹر صاحب جو تب تک کافی دباؤ میں تھے، نے کچھ نہیں پوچھا اور میری درخواست پر دستخط کر دیے۔

میرا کام ہو جانے پر جو سکھ کا سانس میں نے لیا، وہ بیان سے باہر ہے۔

لیکن سکھ کے اس سانس کے بعد میں نے سوچا کہ ہماری حکومت عوام کی خدمت کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے۔

یہ صرف میرا تجربہ ہے۔ اس ملک میں لوگ ہر روز سرکاری ہسپتالوں، تھانوں، لائسنس دفاتر، اسکولوں، ضلع کونسلوں اور دیگر سرکاری اداروں میں ایسی ہی خواری سے گزرتے ہیں۔

اور پھر جب ہم پارلیمنٹ لاجز، وزیرِ اعلیٰ ہاؤسز، گورنر ہاؤسز اور ایوانِ صدر کو دیکھیں تو ہمیں کیسا محسوس ہونا چاہیے؟ سیاسی اشرافیہ اپنا خیال تو پوری طرح رکھتی ہے۔

ایک ایڈمنسٹریٹر کی تبدیلی یا ملک کو پولیس اسٹیٹ بنانا یا نیب کو ٹھیک کر دینا ہمیں ایسی قوم نہیں بنا سکتا جو اپنے شہریوں کا خیال رکھتی ہے۔

یہ صرف تب ہوگا جب اعلیٰ ایوانوں میں موجود لوگ اپنی اقدار تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ صرف تب ہی تبدیلی نیچے تک محسوس ہوگی۔

میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب پاکستان میں عوامی خدمت کے لیے سرکاری اداروں کا ضمیر جاگے گا۔ کیا یہ کوئی بہت بڑا مطالبہ ہے؟

انگلش میں پڑھیں۔

محمد عمیر عارف

محمد عمیر عارف نے این ای ڈی یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینیئرنگ کی ہے اور اب نسٹ سے کمپیوٹر وژن میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ بحریہ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: 1Umair7@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔