نقطہ نظر

پیرس حملے: متضاد مفادات سے داعش کو کتنا فائدہ ہوگا؟

افغان طالبان اور دولتِ اسلامیہ کے درمیان ایک قدرِ مشترک ہے کہ دونوں ہی خود کو جائز حکومت تصور کرتے ہیں۔

خود کو دولتِ اسلامیہ کہلوانے والے گروپ کے خلاف شام کے شہر رقہ پر فرانس کے تازہ ترین اور شدید حملوں سے 11 ستمبر کے بعد افغانستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر امریکی قیادت میں اتحادی افواج کے حملوں کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔

امریکی فوجی آپریشن کامیاب رہا تھا جس نے افغانستان میں موجود دہشتگرد نیٹ ورک اور اس کے حامیوں کو بکھیر کر طالبان حکومت کا تختہ الٹنے اور کابل میں قومی حکومت کے قیام کا راستہ ہموار کیا۔

کیا شام میں بھی یہی ہوگا؟

2001 میں افغانستان کی صورتحال اور شام کی موجودہ صورتحال کا موازنہ کرنا مشکل ہے۔ 2001 میں پوری دنیا امریکا کے ساتھ کھڑی تھی مگر شام میں عالمی اور علاقائی کھلاڑیوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔

فرانس میں جو خودکش دھماکے اور دہشتگرد حملے ہوئے ہیں، ان کے زبردست سیاسی اور اسٹریٹیجک نتائج ہوں گے۔ مگر یہ دیکھنا باقی ہے کہ جس طرح 11 ستمبر کے حملوں کے بعد جو سیاسی اور اسٹریٹجک تبدیلیاں آئی تھیں، کیا یہ حملے بھی دنیا کو بالعموم اور یورپ کو بالخصوص ویسے ہی تبدیل کر سکیں گے؟

پڑھیے: فرانس میں حملے 'جنگی اقدام' قرار

بارڈرز سیل ہونا شروع

کچھ اثرات فوری طور پر دیکھے جا سکیں گے۔ شامی مہاجرین، جو خود دولتِ اسلامیہ کا نشانہ ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ کئی یورپی ممالک ان کا اپنے ممالک میں داخلہ بند کردیں گے اور مہاجرین کے خلاف عوامی جذبات بلاشبہ بڑھیں گے۔

سیاسی اور سکیورٹی تجزیہ کار بارڈر سکیورٹی سمیت دیگر سخت ترین سکیورٹی اقدامات کا عندیہ دے رہے ہیں جس سے شینگن معاہدہ (26 یورپی ممالک کا پاسپورٹ اور دیگر بارڈر سکیورٹی اقدامات ختم کرنے کا معاہدہ) بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے خطے پر پیرس حملوں کے براہِ راست اثرات پڑیں گے۔ امریکا اور روس، اور ان کے اپنے اپنے اتحادی مشرقِ وسطیٰ کے بحران کو حل کرنے کی کوشش کریں گے، مگر ان کے ایک دوسرے سے حد درجہ مختلف مفادات اس مسئلے کی شدت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ اس بات کے شواہد بھی ہیں کہ تشدد اور تنازعے کے بڑھتے ہوئے امکانات کا فائدہ خطے اور اس سے باہر مصروفِ عمل جنگجو ضرور اٹھائیں گے۔

پیرس حملے ایک چال؟

یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کیا یہ حملے دولتِ اسلامیہ کو اپنے قبضے میں موجود علاقوں پر گرفت مضبوط کرنے میں مدد دیں گے یا نہیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ان حملوں سے یہ دوسرے مسلم ممالک اور برادریوں میں موجود پرتشدد اور غیر متشدد سخت گیر عناصر میں اپنی نظریاتی اور سیاسی دھاک بٹھانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

پڑھیے: فرانس کے داعش کے خلاف 38 جنگی جہاز

کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ حملے دولتِ اسلامیہ کی حکمتِ عملی میں تبدیلی کا اشارہ ہیں؛ یہ تنظیم اب علاقائی مہم سے آگے بڑھ کر ایک عالمی مہم میں تبدیل ہوگئی ہے۔

اب تک دولتِ اسلامیہ نے ایک علاقائی حکمتِ عملی اپنا رکھی تھی، جس کے تحت اس کا مقصد نہ صرف عراق اور شام، بلکہ ان مسلم ممالک میں بھی اپنا کنٹرول اور اپنی دھاک بڑھانا تھا جہاں پر دہشتگرد کارروائیاں اور جنگجو تحریکیں کافی مضبوط ہیں۔

روسی حملوں اور دولتِ اسلامیہ کے خلاف حملوں کی شدت میں اضافے کے امریکی فیصلے نے اس گروہ کو اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پیرس حملوں سے قبل بھی یہ گروہ شام اور عراق سے باہر مختلف دہشتگرد کارروائیوں کے ذریعے مخالفین کو اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کا اشارہ دے رہا تھا۔

کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس گروہ کی حکمتِ عملی میں یہ تبدیلی اسے القاعدہ کے قریب لا سکتی ہے اور دونوں عالمی دہشتگرد گروہ یا ضم ہو سکتے ہیں یا اتحاد قائم کر سکتے ہیں۔

افغانستان میں کیا ہوگا؟

11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان میں القاعدہ کو شکست دے دی گئی تھی۔ افغانستان میں طالبان حکومت کو جائز حکومت تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ انہیں ایک دہشتگرد گروہ اور القاعدہ کا حامی قرار دیا گیا۔

جانیے: ’امریکا داعش کے خلاف القاعدہ کی مدد کرے‘

انہیں بکھیر دیا گیا تھا مگر دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ افغانستان پر حکومت کا ان دعویٰ ان کی تحریک میں جان ڈالے ہوئے ہے، اور اب وہ مستقبل میں افغانستان کے اقتدار میں جائز شراکت دار کے طور پر تسلیم کیے جانے کے قریب ہیں۔

افغان طالبان اور دولتِ اسلامیہ کے درمیان یہی ایک قدرِ مشترک ہے: دونوں ہی خود کو جائز حکومت تصور کرتے ہیں۔

مگر دنیا ان دونوں کو غیر ریاستی عناصر اور دہشتگرد گروہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا دولتِ اسلامیہ کا بھی وہ حشر ہوگا جو طالبان کا ہوا، مگر وہ طالبان کی طرح ہی خود ایک ریاست کے طور پر سمجھتے ہیں۔

شام اور عراق میں عالمی اور علاقائی اسٹیک ہولڈرز کی حکمتِ عملی آپریشنل خامیوں کے باوجود یہ دولتِ اسلامیہ کا انفراسٹرکچر تباہ کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ مگر کیا یہ دولتِ اسلامیہ کا نظریاتی اور سیاسی محاذ پر بھی مقابلہ کرتے ہیں خاص طور پر جب یہ گروہ خود کو اسلامی خلافت کا رکھوالا کہلاتا ہے؟

چیلنج اب تہہ در تہہ ہوتا جا رہا ہے۔ دولتِ اسلامیہ نے دکھا دیا ہے کہ یہ ایک ریاست قائم کر سکتی ہے بھلے ہی دنیا اسے جائز تسلیم نہ کرے؛ ایسی صورتحال میں دنیا کے سیاسی، اسٹریٹیجک اور تاریخی نظریات تبدیل ہو سکتے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ابھی بھی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس آپریشنل صلاحیتیں، سیاسی اتفاقِ رائے اور شاید مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کی خواہش بھی نہیں ہے۔ اس لیے امریکا، روس اور ان کے یورپی اتحادی اپنے ممالک میں موجود چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اس کام کو ادھورا نہیں چھوڑ سکتے۔

انگلش میں پڑھیں۔

محمد عامر رانا

لکھاری سیکیورٹی تجزیہ نگار ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔