براہمداغ بگٹی کی باغی گروہوں کو مذاکرات کی دعوت
کوئٹہ: بلوچ ری پبلکن پارٹی (بی آر پی) کے سربراہ نواب براہمداغ بگٹی نے آزادی کی حامی کالعدم بلوچ تنظیموں سمیت مختلف جماعتوں کو اختلافات کے حل کے لیے مذاکرات کی دعوت دے دی.
جینیوا سے جاری کیے گئے ایک بیان میں براہمداغ بگٹی کا کہنا تھا کہ مسائل کے یقینی حل کے لیے اتحاد ہی واحد راستہ ہے.
بگٹی نے تجویز دی کہ تمام جماعتوں اور رہنماؤں کی ملاقات کا انعقاد سوئٹزرلینڈ میں کیا جانا چاہیے یا پھر یہ کسی بھی یورپی ملک میں منعقد کی جاسکتی ہے، جہاں بی آر پی کا وفد تو شرکت کرے گا تاہم وہ خود ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوں گے کیوں کہ انھیں سوئٹز لینڈ سے باہر سفر کرنے کے لیے کچھ دستاویزات درکار ہیں.
اپنے بیان میں بگٹی نے تمام بلوچ رہنماؤں سے درخواست کی کہ وہ اپنے اختلافات اور دوسرے معاملات ایک طرف رکھ کر ایک ماہ کے اندر سوئٹزرلینڈ میں جمع ہوں تاکہ تمام مسائل کا حل نکالا جاسکے.
ان کا مزید کہنا تھا کہ "بہت سارے معاملات میں اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن انھیں کثرت رائے سے حل کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی بھی جماعت یا رہنما اکثریت کے فیصلے کو قبول نہیں کرتی تو پھر بلوچ قوم یہ فیصلہ کرے گی کہ ہماری صفوں میں 'انتشار' کا ذمہ دار کون ہے."
براہمداغ بگٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ "قومی اتحاد کے بعد اُن کی جماعت بی آر پی، ریاست کے ساتھ مذاکرات سمیت تمام معاملات میں اکثریت کے فیصلے کو قبول کرے گی."
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'ریاستی مظالم' کو صرف اتحاد کے ذریعے ہی شکست دی جاسکتی ہے.
واضح رہے کہ بلوچستان حکومت کے عہدیداران حالیہ مہینوں کے دوران ناراض بلوچ رہنماؤں سے مسلسل رابطے میں رہے ہیں، حتیٰ کہ صوبائی وزیر اعلیٰ نے بھی براہمداغ بگٹی سے ممکنہ مصالحت کی امید پر ملاقات کی تھی.
اپنے بیان میں براہمداغ بگٹی نے کہا، "میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم)، بی آر ایس او، بی ایس او-اے، نوابزادہ ہربیار مری، نواب مہران مری، سردار بختیار ڈومکی اور میر جاوید مینگل سمیت تمام آزادی کی حامی جماعتوں اور رہنماؤں سے درخواست کرتا ہوں کہ تمام تر اختلافات کے باوجود بلوچ قوم اور شہیدوں کی قربانیوں کی خاطر قومی اتحاد کے لیے اپنا کردار ادا کریں."
ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت بی آر پی ایک سیاسی اور جمہوری تنظیم تھی اور پر امن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے.
براہمداغ بگٹی کے مطابق بی آر پی، سیاسی اور پرامن طریقے سے بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سیکیورٹی فورسز نے ہمیشہ بلوچ تحریک کو بندوق کی نوک پر دبانے کی کوشش کی ہے".
مذاکرات کی حالیہ رپورٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہر تحریک کو کسی نہ کسی نکتے پر مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے اور بی آر پی کو بھی بلوچوں کے مقصد کو پر امن اور سیاسی طریقے سے پیش کرنے کا حق حاصل ہے.
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مذاکرات کی متعدد مرتبہ درخواست کی، لیکن انھیں مسترد کردیا گیا کیونکہ ان کے پاس ان متنازع معاملات کے حوالے سے کسی قسم کے فیصلے کے اختیارات نہیں تھے اور انھوں نے حالیہ ملاقاتوں میں خود تسلیم کیا کہ ان کا کردار صرف ایک پیغام رساں کا ہے.
وزیراعلیٰ بلوچستان سے سوئٹرزلینڈ میں ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ریاستی نمائندوں پر یہ واضح کردیا ہے کہ کہ مذاکرات اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک بلوچستان میں ریاستی مظالم جاری رہیں گے.
بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچوں کا سب اہم مسئلہ ریاستی مظالم نہیں بکہ ان کے رہنماؤں کے درمیان اتحاد کا نہ ہونا ہے.
یاد رہے کہ گذشتہ دنوں برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے براہمداغ بگٹی کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن مذاکرات صرف بااختیار افراد سے ہوں گے۔
مزید پڑھیں:مسئلہ بلوچستان: ’مذاکرات صرف بااختیار افراد سے‘
سوئٹزر لینڈ میں مقیم براہمداغ بگٹی نے کہا کہ اُن کے دادا نواب اکبر بگٹی نے بھی مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کیے لیکن وہ مذاکرات صرف ان لوگوں سے کریں گے جن کے پاس حالات بہتر کرنے کا اختیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور وفاقی وزیر سے ملاقات کے دوران کہا کہ اگر فوج اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ذہن بدل لیا ہے اور وہ بلوچستان میں آپریشن روک کر سیاسی طریقے سے مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہیں تو ہم بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
براہمداغ بگٹی نے بلوچستان میں قیامِ امن کی کوششیوں پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ فوج کو بلوچوں سے مذاکرات میں کوئی دلچسپی ہے، بلکہ مذاکرات کا اعلان کر کے وہ خود پھنس گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن اُس وقت تک نہیں آسکتا ہے جب تک مذاکرات کے لیے ماحول سازگار نہ ہو اور ماحول سازگار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آپریشن روکا جائے۔
انہوں نے پاکستان واپس جانے اور فوج سے معاہدے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی جانب سے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ براہمداغ بگٹی گزشتہ کئی سالوں سے بیرون ملک جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
انہوں نے گزشتہ سال اگست میں بھی انٹرویو کے دوران بلوچستان کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بلوچ عوام چاہتے ہیں تو وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری کے لیے تیار ہیں۔