لائف اسٹائل

فلم ریویو : پریم رتن دھان پایو

سلمان خان ہی سورج برجاتیہ کی اس فلم کا بہترین حصہ ہیں جو وراثت، دھوکے بازی اور مصالحت پر مبنی ہے۔

رواں سال کے شروع میں ہنومان کے انسانی روپ کو بجرنگی بھائی میں ادا کرنے کے بعد اب سلمان خان سورج برجاتیہ کی پریم رتن دھان پایو میں واپس لوٹے ہیں۔

فلم کا نام ایک ہندو دعا پیوجی میں نے رام رتن دھان پایو سے متاثر ہو کر رکھا گیاہے۔ برجاتیہ نے سلمان خان کو 1989 میں فلم میں نے پیار کیا میں کاسٹ کرکے اسٹار بنایا اور 26 سال بعد دبنگ خان واضح طور پر اپنے گرو سے آگے نکل چکے ہیں۔ وہ لگ بھگ فلم کے ہر فریم میں ہیں۔

سلمان خان نے فلم میں ڈبل رول ادا کیا ہے ایک میں وہ پریم ہے جو ایودھیا کا ایک رام لیلا پرفارمر ہوتا ہے جبکہ دوسرا وجے سنگھ ہے، جو فرائض میں بندھا اور مزاح سے عاری ایک افسانوی ریاست پریتم پور کا شہزادہ ہے۔ وجے سنگھ اپنے سوتیلے بھائی اجے(نیل نتن مکیش)، سوتیلی بہنوں چندریکا (سوارا بھاسکر) اور رادھیکا (آشیکا بھاٹیہ) کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے، مگر جب اس کے پریتم پور کے بادشاہ بننے کی تاریخ قریب آتی ہے تو اس کا دل بھاری ہونے لگتا ہے۔ کیا یہی وجہ ہے کہ وہ آمد و رفت کے لیے گھوڑوں کی بگھی جیسی زمانہ قدیم کی سواری کا انتخاب کرتا ہے؟

وجے کو ایک حادثے کے بعد منظرعام سے ہٹا دیا جاتا ہے جو اجے اور سازش میں اس کے ساتھی چراغ (ارمان کوہلی) نے ترتیب دیا ہوتا ہے جس کا موقع انہیں پریم کو دیکھنے کے بعد ملتا ہے۔ ایک عام شخص کو شاہی خاندان میں جگہ مل جاتی ہے اور فلم کا مزاج کچھ باورچی ہوجاتا ہے۔

پریم وجے کی چھوٹی خامیوں کو درست کرنے لگتا ہے اور اپنی نارضامند منگیتر شہزادی میتھالی (سونم کپور) کا دل جیت لیتا ہے۔

خاندان کے وفادار ملازم جسے صرف باپو (انوپم کھیر) کے نام سے جانا جاتا ہے، پریم مثالی شخصیت کے طور پر ابھرتا ہے جو وجے کو ہونا چاہئے تھا۔

فارمولا فوڈ

برجاتیہ کی اس نئی کاوش میں خاندانی رنگ کو اسی مکھن اور شکر میں پکایا گیا ہے جو ہم آپ کے ہیں کون، ہم ساتھ ساتھ ہیں اور واوہ میں نظر آتا ہے۔

اس میں تمام متوقع اجزاءموجود ہیں، جیسے خاندان کی اہمیت، جائیداد پر زور دینا اور اچھا عوامی رویہ۔ تجارتی کلچر کا جشن، دولت کی پوجا اور سماجی حیثیت، مردوں اور خواتین کے متعین کردہ کردار۔ یہ ڈزنی ورلڈ میں نظر آنے والی پریوں کی دنیا ہے مگر انڈین انداز کے ساتھ۔

راجشری فلمز انڈین سینما میں ویسی ہی حیثیت رکھتی ہے جیسی ویکو وجردنتی کو ٹوتھ پیسٹ کی صنعت میں، مقامی پیداوار اور فخریہ قدامت پسند مگر اس بینر کو مجبوراً یہ ماننا پڑا ہے کہ عوامی مزاج 90 کی دہائی کے وسط کے مقابلے میں بدلا ہے۔

پریم رتن دھان پایو میں جو کچھ دکھایا گیا ہے وہ راجشری کے روایتی انداز میں بنیادی تبدیلیاں قرار دی جاسکتی ہیں۔ جیسے سونم کپور کے ملبوسات اور پریم کے ساتھ رومان لڑانا یا پریم کے رقص کے کچھ انداز جو سلمان خان کی کسی اوسط فلم کے لیے فٹ ہوتے ہیں اور ان کی مجموعی شخصیت راجشری کے روایتی مہذب اور فرماں بردار ہیرو کے مقابلے میں سلمان خان کے دیگر کیے جانے والے کرداروں کا زیادہ کنٹرول اور ہلکا ورژن ہے۔

یہ سپراسٹار کرداروں پر پوری طرح چھاگیا ہے مگر اس فلم میں یہ کام بھی آیا ہے کیونکہ پریم رتن دھان پایو میں کوئی اور نظروں میں آتا ہی نہیں۔ سونم کپور اور انوپم کھیر کے کرداروں کو ہی اس سرسری انداز سے بیان کی جانے والی کہانی میں زیادہ اجاگر کیا گیا ہے ۔برجاتیہ نے خاندانی لمحات میں ڈائریکشن کا کمال دکھایا ہے مگر تھرلر کے حوالے سے کوئی احساس پیدا نہیں کرسکے ہیں۔ وجے کو پریم سے بدلنے کی سازش کو لگ بھگ فراموش ہی کردیا گیا اور اصل سوال یہ نہیں رہا کہ وجے واپس آئے گا یا نہیں بلکہ یہ تھا کہ دلہن کس کے ساتھ جائے گی۔

سونم کپور سلمان خان سے 20 سال کم عمر ہیں، وہ اس وقت چار سال کی تھیں جب میں نے پیار کیا، ریلیز ہوئی اور عمر کا یہ فرق متعدد رومانوی لمحات میں تکلیف دہ انداز سے ظاہر ہوا۔ مگر پھر بھی وہ اپنے سے سنیئر اداکار کی توانائی کا مقابلہ نہیں کرسکیں۔ سلمان خان نے دونوں کرداروں پر اپنی حالیہ فلموں کے مقابلے میں سخت محنت کی ہے اور ڈائریکٹر کے لیے وہ جادو اجاگر کیا ہے جس نے ان کے زبردست کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔

پریم رتن دھان پایو اپنے 174 منٹوں میں راہ سے بھٹکی ہوئی نظر آئی، وہ نہ تو ایک مہنگے اور ہائی پروفائل پراجیکٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے بلند توقعات پر پورا اتر سکی ہے اور نہ ہی اسے بہت زیادہ کمتر کہا جاسکتا ہے۔ اپنے ناظرین کی طرح یہ فلم درمیان میں مضبوطی سے ٹریک پر جمی رہی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

بشکریہ اسکرول ڈاٹ ان