'اوسواڑوں' کی راہ تکتا گوڑی مندر
پانی جیون ہے۔ یہ جہاں جہاں سے گذرتا ہے وہاں جیون کے بیج بوتا جاتا ہے۔ دریائے سندھ جہاں جہاں سے گذرا وہاں ہزاروں بستیاں آباد ہوئیں۔ تاریخ کے اوراق دیکھے جائیں تو 'ہاکڑہ' (ہمالیہ سے نکلنے والا ایک قدیم دریا) جسے سرسوتی بھی کہا جاتا ہے، کے کناروں پر ایک شاندار تہذیب کے پھول اُگے۔ 'ڈھولا ویرا' سرسوتی کے ڈیلٹا کا آخری عظیم الشان شہر تھا بالکل ایسے جیسے دریائے سندھ کے کنارے 'موہن جو دڑو' اپنی زمینوں میں کپاس اُگاتا تھا۔ دنیا میں کپاس کا پہلا پودا اس دریائے سندھ کی تہذیب میں ایک غرور کی طرح جُڑا ہوا ہے۔ یہ ساری خوبصورتیاں اور آسائشیں دوسری قوموں کے لیے ایک دعوت کی پگڈنڈی کو تخلیق کرتی ہیں۔ وادیء سندھ میں بھی کچھ اس طرح ہی ہوا۔
آرین کے یہاں آنے سے یہاں کے فطری لینڈ اسکیپ میں یقیناً ایک بہت بڑی تبدیلی آئی، اور یہ کوئی اتنی قدیم آمد بھی نہیں ہے۔ اندازاً یہ آمد دو ہزار قبل مسیح میں شروع ہوئی اور اس آمد کا سلسلہ پانچ سو برس تک جاری رہا۔ آریوں کا دور جو 'رگ وید' سے شروع ہوا اس کا اختتام 'مہابھارت' کی تخلیق پر ہوا۔
گوتم بدھ ویدک عقائد و رسوم کے سخت خلاف تھا۔ اس نے جب اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کی تو وادی گنگ و جمن کے سماج کا چولا بڑی تیزی سے بدل رہا تھا۔ آریوں اور غیر آریوں کے جمہوری 'سنگھ' ٹوٹ رہے تھے۔ ویدک دھرم اور برہمنیت جو گلہ بانوں کے فلسفۂ حیات کی پاسبان اور ترجمان تھے، ان بدلے ہوئے حالات کا ساتھ دینے سے نہ صرف قاصر تھے بلکہ معاشرے کی راہ میں رکاوٹ بھی ڈال رہے تھے۔
اس معاشرتی اور فکری تضاد کو گوتم بدھ کے علاوہ کئی دوسرے سنتوں اور سادھوؤں نے بھی محسوس کیا، چنانچہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں سماجی اصلاح کے جو نظریے پیش کیے گئے، ان کی تعداد 60 سے بھی اوپر تھی۔
برہمنوں کے خلاف جو تحریکیں جاری ہوئیں، ان میں سب سے زیادہ بلند حیثیت 'جینی تحریک' نے اختیار کی۔ ان میں 'مہاویر' بھی تھا، جو اہنسا اور جیون تیاگ کی تلقین کرتا۔ 'اجتیا' تھا جو کہتا تھا کہ دیوی دیوتاؤں کی پوجا فضول ہے اور ہَون، قربانی اور ویدک رسموں کو ادا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
اگر اس زمانے کے حالات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ پتہ چلے گا کہ جین مت اور بدھ مت کی مقبولیت کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ان مذاہب کو قبول کرنے کے بعد ان کے مویشیوں کو قربانی کے جھمیلوں سے نجات مل جاتی تھی۔
اگر آپ اسلام کوٹ سے ننگر پارکر جا رہے ہیں تو ننگر پارکر سے بہت پہلے مرکزی راستے سے مشرق کی طرف ایک پکا لنک روڈ نکلتا ہے۔ آپ جیسے آگے جاتے ہیں تو راستے کے دونوں اطراف اچانک سے بہت سارے رہائشی گھر (گھاس پھوس کے بنے چوئنرے) اگ سے آتے ہیں۔ گھروں کے تحفظ کے لیے خاردار جھاڑیوں کی ایک باڑ دے دی گئی ہے۔ اس باڑ سے گھروں کے آنگن نظر آتے ہیں۔ ابھی سورج ڈھلنے میں بہت سارا وقت پڑا ہے مگر ان آنگنوں پر شام کسی گوری کی طرح چھم سے آگئی ہے۔ کوئی عورت بکری سے دودھ دوہ رہی ہے کہ شام کی چائے بن سکے، کوئی ماں اپنی بیٹی کے سر کے بالوں میں تیل لگا کر اس کے بال گوندھ رہی ہے۔ چھوٹے بچے ہیں جو ہماری گزرتی گاڑی کو بس ایک نظر دیکھتے ہیں اور غیر اہم سمجھ کر اپنی دھینگا مشتی میں لگ جاتے ہیں۔
یہ گھر اچھے خاصے فاصلے تک ساتھ چلتے ہیں پھر جیسے ہی راستہ شمال کی طرف مڑتا ہے تو گھر جیسے راستے سے روٹھ کر منہ موڑ لیتے ہیں۔
پھر تھوڑے فاصلہ پر راستہ کے مغرب میں ایک گاؤں نظر آتا ہے، بڑا خوبصورت اور صاف ستھرا سا۔ ہم آگے بڑھتے ہیں اور سامنے راستے کے مغربی کنارے پر وہ مشہور مندر کھڑا ہے جس کے متعلق نہ جانے کتنی لوک روایات ہیں جو تنازعات سے بھری پڑی ہیں۔ کتنے بھی تنازعات ہوں مگر یہ فن تعمیر کا ایک خوبصورت اور حیرت انگیز نمونہ ہے۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ جین دھرم کے 24 دھرم نیتا ہوکر گزرے ہیں، ان 24 میں سے 23 نمبر پر "پارس ناتھ" (877-777 قبلِ مسیح) کا نام آتا ہے۔ اسے 'پارشو ناتھ' اور 'گوڑیچا' کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ مندر سوڈھا سرداروں کی حکومت کے زمانے تقریباً دسویں و گیارویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوا۔ یہ مندر جین مت کے دیگر مندروں سے بالکل الگ ہے۔ مرکز میں تو پوجا پاٹھ کا مندر ہے لیکن ان کے تینوں اطراف میں دھیان گیان کی کوٹھیاں ہیں جہاں جین دھرم کے گیانی ان کوٹھیوں میں جین دھرم کے، 'جیو' (روح)، 'اجیو' (غیر ذی روح)، 'اسرو' (روح میں مادہ کی ملاوٹ)، 'بندھ' (اس ملاوٹ کے بعد روح مادہ کی قیدی بن جاتی ہے)، 'سمورا' (روح میں مادہ کی ملاوٹ کو روکا جا سکتا ہے)، 'نرجرا' (روح میں پہلے سے موجود مادہ کو زائل کیا جا سکتا ہے) اور 'موکش' (نجات) کی گتھیوں کو سلجھانے میں صبح اور شام کر دیتے۔