تاجک صدر کا دورہ، دوطرفہ شراکت داری پر گفتگو
اسلام آباد: پاکستان اور تاجکستان کے درمیان اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی مذاکرات ہوئی جس کے دوران دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں تعاون کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے پاکستانی وفد کی قیادت کی جبکہ تاجک وفد کی نمائندگی تاجک صدر امام علی رحمٰن کررہے تھے۔
دونوں اطراف نے توانائی، سیکیورٹی تجارت، ثقافت سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کے حوالے سے گفتگو کی۔
اس کے علاوہ انسداد دہشت گردی اور منشیات و انسانی اسمگلنگ کے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بعدازاں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران نواز شریف کا کہنا تھا کہ تاجکستان کا محل وقوع پاکستان کے لیے اہمیت کا حامل ہے، دوروں سے باہمی تعلقات اور تعاون میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ وسط ایشیائی ریاستوں کےلئے تاجکستان گیٹ وے کی حیثیت رکھتاہے، دونوں ممالک کے درمیان قریبی برادرانہ تعلقات ہیں۔
انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ کاسا 1000 منصوبہ 2018 تک مکمل ہوجائے گا جبکہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پر عزم ہے۔
کاسا منصوبے کے تحت تاجکستان پاکستان کو 1000 میگاواٹ سستی بجلی فراہم کرے گا جبکہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ اسے 2018 تک مکمل کرلیا جائے گا۔
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ بزنس کونسل قائم کی گئی ہے۔
اس موقع پر تاجک صدر کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان سائنس، دفاع، ثقافت، توانائی اور تجارت بڑھانے پر بات ہوئی۔
تاجک صدر نے کہا کہ انہوں نے مشترکہ وزارتی کمیشن کا اجلاس اسلام آباد میں بلانے کی تجویز دی ہے۔
تاجک صدر کے مطابق مذاکرات میں دوطرفہ شراکت داری سےمتعلق بات چیت ہوئی، دورہ پاکستان باہمی تعلقات کی کامیابی کی داستان ہیں۔
تاجک صدر نے کہا کہ تاجکستان انسداد دہشت گردی و منشیات سمیت دیگر امور پر تعاون کرے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مذاکرات کے دوران فضائی اور زمینی رابطے بڑھانے پر تبادلہ خیال کیاگیا۔
اس سے قبل وزیراعظم ہاؤس میں تاجک صدر کو سرکاری استقبالیہ دیا گیا۔
تاجک صدر کو گارڈ آف ہونر بھی دیا گیا جبکہ اس موقع پر دونوں ممالک کے قومی ترانے بھی چلائے گئے۔
دو روز قبل وزیراعظم بیلاروس کے دورہ پاکستان کے دوران دونوں ممالک کے درمیان اوسط اور تیز اقتصادی تعاون کے روڈ میپ سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے 18 سمجھوتے طے پاگئے۔
بیلاروس کے کسی بھی وزیراعظم کا یہ پہلا دورہ پاکستان تھا۔ ان کے ہمراہ ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد بھی تھا۔