نقطہ نظر

علاقہ بازی: دو 'کراچیوں' کی داستان

'آپ کہاں رہتے ہیں؟' کا جواب سنتے ہی یہ فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ آپ 'کول' ہیں یا نہیں.

کوئی چیز انسانوں کو پیسے سے زیادہ تقسیم نہیں کرتی؛ کوئی مذہب، کوئی ذات اور نسل ہمارے سماجی طبقے سے زیادہ تقسیم کا سبب نہیں بنتی۔

ہمیں ہمارے گھر کے صحن کے سائز، ہماری گاڑی کے ماڈل، ہمارے ہینڈ بیگ کی قیمت اور ہماری تنخواہ کے آخر میں لگنے والے 'صفر' کی تعداد سے ہی پرکھا جاتا ہے۔

مگر کراچی میں آپ کو آپ کی رہائش کے علاقے سے بھی پرکھا جاتا ہے؛ علاقہ بتانا سرسری طور پر اپنی زندگی کا بائیو ڈیٹا بتانے جیسا ہی ہوتا ہے۔

'آپ کہاں رہتے ہیں؟' کا جواب سنتے ہی یہ فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ آپ 'کول' ہیں یا نہیں، اور یہ کہ آپ سے ملنا جلنا چاہیے یا نہیں۔ ایک بار یہ فیصلہ ہوجائے، تو پھر آپ اپنے بارے میں اس تاثر سے جان نہیں چھڑا سکتے۔

متوسط اور بالائی متوسط طبقے کے لوگ امیروں کے ساتھ گھلنا ملنا چاہتے ہیں اور پہلے سے امیر لوگ طاقتور لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے پاس صرف 'میلے' بچتے ہیں، اور میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ کوئی بھی 'میلے' کے ساتھ سیلفی نہیں کھنچوانا چاہے گا۔

یہ لفظ ہے ہی اتنا تعصب انگیز کہ انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کراچی میں رہنے والے اس طبقے کو کراچی کے دوسرے لوگ انسان بھی سمجھتے ہیں یا نہیں۔

کراچی سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہے، یہ سب جانتے ہیں، مگر اس سے بھی زیادہ مضبوط تقسیم معاشی بنیادوں پر ہے جسے میں 'علاقہ بازی' کہنا چاہوں گی۔

طبقاتی احساس روز مرہ کی زندگی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ رہائشی علاقوں میں رہنے والوں کے مخصوص نام رکھے جاتے ہیں اور عادات ان سے جوڑی جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر 'ناظم آبادیہ' ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو 'دوسری' طرف رہتے ہیں، دلی والی اردو بولتے ہیں اور نہاری اور حلیم چٹخارے لے لے کر کھاتے ہیں۔ 'میلا' یا 'بن کباب' ڈیفنس اور کلفٹن کے باہر رہتا ہے، کیونکہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں خود ساختہ 'نفیس' پاکستانی رہتے ہیں۔

ڈیفنس کراچی کے لیے ویسا ہی ہے جیسا ممبئی کے لیے باندرا ویسٹ یا نئی دہلی کے لیے گڑگاؤں؛ اگر لوگ اپنی سہولت اور حفاظت کے لیے کسی علاقے میں رہنا پسند کرتے ہیں، تو یہ ٹھیک ہے اور ان کا حق ہے، مگر ہم ان لوگوں کے بارے میں غیر حساس کیوں ہوجاتے ہیں جو شہر کے درمیانے اور نچلے درجے کے علاقوں میں بمشکل اپنی زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں؟

کراچی دو طرح کا ہے اور دونوں ہی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کریم آباد، بفرزون، اور نارتھ کراچی جیسے علاقے 'ڈیفنس والوں' کے لیے شجرِ ممنوعہ ہیں۔ ان کو اگر موقع ملے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی آکسیجن بھی باہر سے درآمد کرنا پسند کریں گے۔

لوگ یہاں بڑے بڑے نام استعمال کرنا پسند کرتے ہیں: سیاستدانوں اور صنعتکاروں سے تعلقات کا مطلب ہے کہ ان کے جاننے والے ان کی اور زیادہ عزت کریں گے۔

کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ: 'یار میں ایک بہت باکردار کمپاؤنڈر کو جانتا ہوں۔ ہمیں اس کے ساتھ زیادہ ملنا جلنا چاہیے۔'

میں نے یہ بھی جانا ہے کہ ایک خفیہ طریقہ اپنے سے نچلے درجے کے لوگوں سے کم سے کم بات کرنا ہے۔ اور اگر آپ ان 'نچلے' لوگوں کے ساتھ کوئی دوستانہ بات کر بھی لیں، تو پھر آپ کو اجازت ہے کہ آپ پورا دن اپنے آپ کو فلاحی شخصیت سمجھیں، جیسے کہ آپ نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا ہو۔

ہمارا شہر اخلاقی اعتبار سے دیکھیں تو نہایت بری حالت میں ہے، مگر اس کے ذمہ دار صرف اونچے طبقے کے لوگ ہی نہیں۔ متوسط طبقے کے لوگ بھی لیبل لگانے سے نہیں چوکتے۔

ان کا احساسِ کمتری صاف دیکھا جا سکتا ہے جب وہ دولت اور دولتمندوں کی بڑی بڑی کہانیاں سنائیں، پوش جگہوں پر اردو بولنے سے ہچکچائیں، اور یہاں تک کہ بولی وڈ کی باتیں کرتے ہوئے بھی، جس سے یہ مرض سماج کے ہر طبقے میں پھیلتا ہے۔ ہاں 'میلا' ہندی فلمیں دیکھتا اور ان پر بات کرتا ہے مگر اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ 'غیر میلے' وہ ہیں جو ہندوستان کے کسی معمولی درجے کے سلیبریٹی کی کراچی آمد پر اس سے ملنے کے لیے مر رہے ہوتے ہیں۔

میں اپنی بات کروں تو میں چاول ہاتھوں سے کھانا پسند کرتی ہوں، کئی بار ڈولمین مال رکشے میں گئی ہوں اور بولی وڈ کے بخیے ادھیڑنے میں مزہ آتا ہے۔ ہاں میں بھی میلوں میں سے ہوں۔

کراچی میں ایک بہت بڑی مافیا کام کر رہی ہے جو موبائل چھیننے والوں سے زیادہ خوفناک ہے، ہر کونے میں موجود ہے، اور اس سے فوری نمٹنا نہایت ضروری ہے: عزت چھیننے والی مافیا لوگوں کو دن دیہاڑے بے آبرو کر رہی ہے۔

عاجزی کو اغوا کر کے ہمارے دلوں سے دور کسی نامعلوم مقام پر پھینک دیا گیا ہے۔

ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ گلی میں بیٹھا درزی بھی زبردست دانا ہو سکتا ہے، اپنے بچوں کے لیے ہیرو ہو سکتا ہے، اور شاید اس نے آپ کی زیادہ مدد کی ہو بہ نسبت ان سیاستدانوں کے جو ٹی وی پر بیٹھ کر خالی خولی وعدے کرتے ہیں۔

تو کیا آپ سوشل میڈیا پر اپنے درزی کی فرینڈ ریکوئیسٹ قبول کرنا چاہیں گے؟ اگر ایسا سوچنا بھی آپ کے لیے پریشان کن ہے، تو سوچیں کہ حقیقت میں 'میل' کہاں پر ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ماریہ سرتاج

ماریہ سرتاج ثقافتی علوم میں فارغ التحصیل ہیں۔ وہ معاشروں، خصوصاً جنوبی ایشیائی معاشروں کے رویوں میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: chainacoffeemug@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔