پاکستان

مسئلہ بلوچستان: ’مذاکرات صرف بااختیار افراد سے‘

براہمداغ بگٹی کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک کے پاس بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے کوئی اختیار نہیں ہے۔

لندن: بلوچ آزاد پسند رہنما اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سربراہ براہمداغ بگٹی کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن مذاکرات صرف بااختیار افراد سے ہوں گے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے براہمداغ بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں امن مذاکرات کے حوالے سے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ اور وفاقی وزیر عبد القادر بلوچ نے جنیوا میں ان سے ملاقات کی تھی، لیکن بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے عبد المالک بلوچ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔

سوئٹزر لینڈ میں موجود براہمداغ بگٹی نے کہا کہ اُن کے دادا نواب اکبر بگٹی نے بھی مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کیے لیکن وہ مذاکرات صرف ان لوگوں سے کریں گے جن کے پاس حالات بہتر کرنے کا اختیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور وفاقی وزیر سے ملاقات کے دوران کہا کہ اگر فوج اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ذہن بدل لیا ہے اور وہ بلوچستان میں آپریشن روک کر سیاسی طریقے سے مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہیں تو ہم بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

براہمداغ بگٹی نے بلوچستان میں قیامِ امن کی کوششیوں پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ فوج کو بلوچوں سے مذاکرات میں کوئی دلچسپی ہے، بلکہ مذاکرات کا اعلان کر کے وہ خود پھنس گئے ہیں۔

یہ پڑھیں : براہمداغ بگٹی کا مذاکرات پر آمادگی کا اظہار

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن اُس وقت تک نہیں آسکتا ہے جب تک مذاکرات کے لیے ماحول سازگار نہ ہو اور ماحول سازگار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آپریشن روکا جائے۔

انہوں نے پاکستان واپس جانے اور فوج سے معاہدے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی جانب سے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ براہمداغ بگٹی گزشتہ کئی سالوں سے بیرون ملک جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ سال اگست میں بھی انٹرویو کے دوران بلوچستان کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بلوچ عوام چاہتے ہیں تو وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری کے لیے تیار ہیں۔