مشرف غداری کیس: خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم
اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر اور سابق وزیر قانون زاہد حامد کو شریک ملزمان ٹہرائے جانے سے متعلق خصوصی عدالت کے 21 نومبر 2014 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا .
یہ بھی پڑھیں : غداری کیس: مشرف کے ساتھیوں پر مقدمہ چلانے کی درخواست منظور
اسلام آباد ہائی کورٹ نے دلائل مکمل ہونے پر 19 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ہائی کورٹ کے جسٹس نور الحق قریشی اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں شریک ملزمان سے متعلق فیصلہ سنایا۔
مزید پڑھیں : غداری کیس، حکومت کی ' پراسرار خاموشی'
یاد رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں خصوصی عدالت نے 21 نومبر 2014 کو وفاقی حکومت کو شوکت عزیز، عبد الحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو شریک ملزمان نامزد کر کے ترمیمی شکایت داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔
فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ادارے کسی بھی عدالتی آبزرویشن کو بالائے طاق رکھ کر تحقیقات کریں۔
مزید پڑھیں : مشرف غداری کیس کا مستقبل کیا ہوگا؟
بعد ازاں سابق وزیراعظم شوکت عزیز،سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور سابق وزیر قانون زاہد حامد نے خصوصی عدالت کے 21 نومبر 2014 کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا.
یاد رہے کہ خصوصی عدالت میں غداری کیس کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ ان کے موکل 3 نومبر کی ایمرجنسی کے تنہا ذمہ دار نہیں، لہذا ان کے ساتھ ساتھ اُس وقت کی کابینہ کے اراکین، سرکاری افسران، اراکین پارلیمنٹ اور کور کمانڈرز کو بھی مقدمے کی تفتیش میں شامل کیا جائے۔
جنرل (ر) مشرف کی درخواست پر خصوصی عدالت نے دیگر افراد کو شریک ملزم نامزد کرنے کی درخواست طلب کی تھی، جس پر ان افراد نے خصوصی عدالت کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا.
یہ بھی پڑھیں : وزیراعظم نے زاہد حامد کا استعفیٰ منظور کرلیا
واضح رہے کہ خصوصی عدالت نے جب دیگر افراد کو شریک ملزم بنانے کے احکامات جاری کیے، اُس وقت مشرف دور کے وزیر قانون زاہد حامد نواز شریف کی کابینہ کے وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھے، جنہوں نے بعد میں استعفیٰ دے دیا تھا.