نقطہ نظر

جرمنی میں اقبال کی تلاش

اقبال جرمن ثقافت پسند کرتے تھے مگر انہوں نے کبھی خود کو اس میں نہیں ڈھالا۔

اگر آپ جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کے شاندار ہائیڈل برگ کیسل سے تھوڑا آگے جائیں تو نیوئن ہیم میں آپ کو ایک پرانی عمارت پر ایک تختی نظر آئے گی جس پر لکھا ہے: "پاکستان کے قومی فلسفی، شاعر، اور روحانی والد ڈاکٹر محمد اقبال 1907 میں یہاں قیام پذیر رہے۔" اقبال نے پی ایچ ڈی مقالہ تحریر کرنے کے لیے جرمن زبان سیکھنے کے لیے ہائیڈل برگ میں چھ ماہ قیام کیا تھا۔

ان کی نظم ایک شام دریائے نیکر ہائیڈل برگ کے کنارے، جو یہاں ہائیڈل برگ میں ہی لکھی گئی تھی، کی طرح ہی میں دریائے نیکر کے کنارے اقبال کے نام سے منسوب سڑک پر چلتی جا رہی تھی۔ ایک قریبی پارک میں خزاں کے پتوں سے ایک تختی ڈھکی ہوئی تھی جس پر یہ نظم جرمن زبان میں تحریر تھی۔

میں نے ڈاکٹر محمد اقبال کو ان کی جرمن استاد ایما ویگیناست کے ساتھ بیٹھے ہوئے تصور کیا۔ فلسفے اور جرمن زبان کے طالبعلم کے طور پر میں جاننا چاہتی ہوں کہ کیا اقبال کو بھی جرمن زبان مشکل محسوس ہوتی ہوگی؟ انہوں نے ویگیناست کے ساتھ رابطے میں رہنے کی خواہش کا اظہار کیسے کیا ہوگا؟ ان تمام سوالوں کے جواب کیسے حاصل کیے جائیں جب نصابی کتابوں میں انہیں صرف علامہ کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور ان کی ذاتی شخصیت کو نہیں؟

اپنے رومان اور علم و دانش کے مرکز کے طور پر مشہور ہائیڈل برگ نے اقبال کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے ایما کو لکھے گئے اپنے درجنوں خطوط میں سے ایک میں کہا کہ ان کا ہائیڈل برگ میں قیام ایک "خوبصورت خواب" ہے جسے وہ دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں انہوں نے عطیہ فیضی کے مطابق ایک جرمن لوک دھن پر رقص کیا اور گانا بھی گایا، ایک شوخ نوجوان طالبعلم کی طرح جو ان کے اپنی ذات میں محدود لندن کے دنوں سے یکسر مختلف تھا۔

مگر پروفیسر اقبال نے ہائیڈل برگ یا میونخ میں جرمن درس و تدریس پر کیا اثر چھوڑا؟ ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں طلباء کو پاکستان کے قومی فلسفی و شاعر کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ 'شاعرِ مشرق' ساؤتھ ایشیاء انسٹیٹیوٹ کی دلچسپی کا مضمون ہوگا۔

ہمبولڈ یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف ساؤتھ ایشیاء اسٹڈیز کی پروفیسر ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا کے مطابق جرمنی میں شاید ہی فلسفے کا کوئی طالبعلم اقبال کو جانتا ہو۔ ان کے مطابق اقبال کا اسلامی قوانین کو بحال کرنے پر زور اور یورپی نظام سے ان کا ٹکراؤ انہیں مغرب سے متصادم کر دیتا ہے۔

جرمنی میں اقبال کی تلاش کے دوران میں بون کے انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم فیبیئن سے ملی۔ اس نے کہا کہ انڈولوجی (ہندوستان کی تاریخ و ثقافت کا مطالعہ) پڑھتے ہوئے اس نے تجسس کا شکار ہو کر اقبال کو پڑھا مگر ان کی شاعری اور سیاسی تصورات اسے بہت پریشان کن لگے۔

ماہرِ مشرقی علوم اور مشہور مضمون ‘How to Carve a Saqi out of Nietzsche’ (نطشے سے ساقی کیسے تراشا جائے) کے مصنف ڈاکٹر اسٹیفن پاپ سمجھتے ہیں کہ اقبال کا فلسفہ زیادہ تر شاعری پر مبنی ہے جبکہ شاعری یورپی ذہن کو نہیں جھنجھوڑتی۔ لبرل مسلمان اسکالرز کے لیے اقبال اسلام کی ایک جدید تشریح پیش کرتے ہیں، اس لیے وہ روحانیت یا اخلاقیاتی فلسفے کے رہنما کے طور پر ایک روشن کردار سمجھے جاتے ہیں۔

مگر ایک حقیقت پسند نقطہء نظر سے دیکھیں تو ڈاکٹر پاپ کے نزدیک اقبال میں چمک دھمک نہیں ہے۔ اور جبکہ روایتی سوانح نگار اقبال کی ایما سے دوستی کو رد کرتے ہیں، ڈاکٹر پاپ کے نزدیک اقبال کے ابتدائی سالوں میں ان پر جرمن ادب کا اثر سمجھنے میں ایما کو جاننا ضروری ہے۔ ظفر انجم اقبال پر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اقبال کی زیادہ تر عشقیہ نظمیں ہائیڈل برگ میں ایما سے ان کے تعلق کے دوران لکھی گئی تھیں۔

روبوٹکا کے مطابق اقبال جرمن ثقافت پسند کرتے تھے مگر انہوں نے کبھی خود کو اس میں نہیں ڈھالا۔ مثال کے طور پر انہوں نے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک جرمن ملازمہ رکھی، مگر ان کی پرورش قدامت پسند انداز میں کی گئی۔ روبوٹکا اور پاپ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اقبال جرمن ادب اور ثقافت کی اس گہرائی میں نہیں اترے تھے جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ پاپ کے مطابق ان کی استاد کی قدامت پرستی کی وجہ سے انہوں نے اپنے زمانے کی رومانویت کا اثر زیادہ قبول کیا اور ہائنریک ہائین کے قصیدے پڑھے، جبکہ 'فحش' گوئٹے کو ایک طرف رکھ دیا۔

پاپ کے مطابق یوں تو اقبال نطشے اور برگسن سے متاثر ہونے پر خود کا دفاع کرتے ہیں مگر ان کا تصورِ خودی اس بات کا غماز ہے کہ کس طرح مغربی فلسفے نے ان پر اپنے اثرات چھوڑے۔ ان کی کتاب پیامِ مشرق کو گوئٹے کا جواب مانا جاتا ہے۔

کچھ لوگ اقبال پر الزام لگاتے ہیں کہ اقبال نے نطشے یا شوپنہور کی نقل کی ہے مگر پاپ کے مطابق ایسا نہیں ہے، ہاں ایما ویگیناست کے ساتھ ان کی علمی گفتگو نے انہیں غیر محسوس انداز میں متاثر کیا۔ "ہر شخص کی طرح ان کا اصل کام اجزاء میں نہیں بلکہ اجزاء کو کس طرح ہم آہنگ کیا گیا ہے، میں ہے۔"

روبوٹکا افسوس کرتی ہیں کہ اقبال کو صرف سطحی طور پر پڑھا جاتا ہے اور ان کو اکثر توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق تشریح کی جاتی ہے۔

"کیا اقبال ایک عظیم فلسفی تھے یا عظیم شاعر؟" اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ: "اقبال ایک راز ہے، ایک معمہ، آپ کو اسے دریافت کرنا ہوگا۔"

انگلش میں پڑھیں.

آج علامہ محمد اقبال کا 138 واں یومِ پیدائش ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 9 نومبر 2015 کو شائع ہوا۔

ذُریہ ہاشمی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔