نقطہ نظر

حضرو: مندروں اور گردواروں کا شہر

ماضی میں فصیل اور چار دروازوں والا یہ شہر کئی مندروں، گردواروں اور حویلیوں کا شہر ہے.

حضرو: مندروں اور گردواروں کا شہر

ذوالفقار علی کلہوڑو

ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن دانی سے میری متواتر ملاقاتوں میں سے ایک کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ پوٹھوہار کا خطہ آسمان تلے ایک تاریخی عجائب گھر ہے۔ روات سے ٹیکسلا اور کٹاس تک پورا علاقہ تاریخی تعمیرات سے اٹا پڑا ہے۔

ڈاکٹر دانی کے انہی تاثرات نے مجھے پوٹھوہار کا خطہ از سرِ نو دریافت کرنے پر آمادہ کیا۔ ایسے ہی ایک سفر کے دوران میں پنجاب کے ضلع اٹک کی ایک تحصیل حضرو پہنچا تو یہاں کی عمارات دیکھ کر دنگ رہ گیا۔

ماضی میں فصیل اور چار دروازوں والا یہ شہر کئی مندروں، گردواروں اور حویلیوں کا شہر ہے، جو اندازاً سکھ اور برطانوی دور میں تعمیر کی گئی تھیں۔

حضرو کی ایک حویلی.
حضرو کی ایک حویلی.

مگر مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ کبھی زبردست شان و شوکت والی یہ تعمیرات اب تیزی سے اپنا وجود کھوتی جا رہی ہیں۔ ریتلا منڈی میں موجود سکھ گردوارہ فوری مرمت چاہتا ہے۔ عمارت کا گنبد جزوی طور پر گر چکا ہے جبکہ ان دیواروں کو مزین کرنے والی پینٹنگز بھی اب مٹتی جا رہی ہیں۔

ٹوٹ پھوٹ کی شکار یہ تعمیرات اپنے شاندار ماضی کی اب صرف ایک جھلک بن کر رہ گئی ہیں۔

اس گردروارے میں اب بھی سکھ گروؤں کی چند پینٹنگز نظر آتی ہیں جن میں بابا گرو نانک اور ان کے ساتھی بالا اور مردانہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ خالصہ ہیروز کی پینٹنگز بھی موجود ہیں۔ قریب سے دیکھیں تو سکھ نائیکائیں (ہیروئنز) کے خاکے بھی ہیں جو ایسی لگتی ہیں جیسے خود کو دیکھنے کے لیے شیشے اٹھا رکھے ہوں۔

ایسی نائیکاؤں کے خاکے پوٹھوہار کے دیگر قصبوں اور دیہاتوں میں قائم سکھ اور ہندو حویلیوں اور مندروں میں بھی نظر آتے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ خوبصورت خاکے راولپنڈی کے علاقے کلر سیداں میں بابا کھیم سنگھ بیدی کی حویلی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

گردواروں کے علاوہ حضرو میں کافی ساری حویلیاں بھی ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر کن حویلیاں دو بھائیوں بال ماکن شاہ اور گوکل شاہ کی ملکیت تھیں۔

ماکن شاہ کی ملکیت حویلی بالم کھنڈا طرزِ تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے، جہاں اب ایک مسلمان گھرانہ قیام پذیر ہے۔

دوسری جانب گوکل شاہ کی حویلی کو سبزی منڈی میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہے۔ یہ حویلی اپنے حجم اور خوبصورتی کے لیے مشہور تھی اور اپنے مالک کی دولت اور سماجی حیثیت کا پتہ دیتی تھی، مگر اب اس کی پینٹنگز کا رنگ اتر گیا ہے اور ماضی میں خوبصورت رہ چکے جھروکے بھی اب اپنی کشش کھو چکے ہیں۔

اس کی تعمیر کے موقع پر گوکل شاہ حضرو کے مجسٹریٹ تھے۔ قصبے کے ایک معزز رہائشی حکیم نعیم کے مطابق اس علاقے کی زیادہ تر زمین گوکل شاہ کی تھی۔ حضرو کی نصف زمین انہی دونوں بھائیوں کی ملکیت تھی۔ بعد میں گوکل شاہ کے بیٹے نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام یوسف رکھا۔

حضرو میں تو مندر بھی ہیں۔ ایک شہباز محلے میں ہیں اور ہندو دیوتا شیو جی کے نام سے منسوب ہے۔ اس کے اندر سیرامکس کا کام کیا گیا ہے۔

حضرو کا شیو مندر.
شیو مندر کی شکھر.

مندر کی شکھر (چوٹی) کو 'زندگی' کی علامت کے طور پر شیورون لائنز (وی شکل کا امتیازی نشان) سے سجایا گیا ہے۔

دوسرا مندر جسے ہری مندر بھی کہا جاتا ہے، ہری محلے میں ہی قائم ہے جسے اب محلہ جامع مسجد کہا جاتا ہے۔ حویلی میں قائم یہ مندر ہندو دیوتا وشنو کے نام سے منسوب ہے۔

ہری مندر کا منظر.
ہری مندر.

داخلی حصے کے اوپر لگی ایک تختی کے مطابق یہ مندر بھگت بشنداس ویکنتھ کی یاد میں حضرو کی سرسوتی سبھاپتی ہری مندر کمیٹی کے سوامی دیانند نے وکرم سمبت (ہندوستانی مہینے) 1989 میں بنوایا تھا، جو عیسوی تقویم کے اعتبار سے 1928 کا سال بنتا ہے۔

ہری مندر کا سامنے کا حصہ.

ہری مندر بہت وسیع و عریض ہے۔ اس کا سامنے کا حصہ جھروکوں اور گیلریوں سے مزین ہے۔ مرکزی دروازہ پھولوں کے نقوش و نگار سے سجایا گیا ہے جبکہ اندرونی حصے کو پینٹنگز سے سجایا گیا ہے۔

ہری مندر کا ایک جھروکہ.
ہری مندر کے سامنے کے حصے کا جھروکہ.
ہری مندر کا سامنے کا حصہ.
جھروکے پر باریک کام دیکھنے کے قابل ہے.
ہری مندر اور قریبی حویلی کی کھڑکیاں.

یہ مندر مشرقی جانب سے حویلی سے ایک پل کے ذریعے منسلک ہے۔ حضرو کے ایک رہائشی سہیل ڈار کے مطابق ہری مندر کا ہر کمرہ پینٹنگز سے سجا ہوا تھا مگر بعد میں اس کے رہائشیوں نے ساری پینٹنگز پر چونا پھیر دیا۔

حضرو کے تعمیراتی ورثے کو کھنڈرات میں تبدیل ہوتے دیکھنا نہایت افسوسناک ہے۔ متعلقہ حکام کو فوراً اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیئں اور قصبے کی چند اہم سڑکوں کو ثقافتی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف مقامی سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ پاکستان کی معیشت بھی بہتر ہوگی۔

یورپ اور کچھ ایشیائی ممالک کی حکومتیں شہری سیاحت کو فروغ دینے کا کامیاب تجربہ کر چکی ہیں۔ ہم بھی اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ کر کے ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ سیاحت اب صرف ریزورٹس اور شاپنگ مالز تک محدود نہیں رہی، بلکہ زندگی کو مختلف انداز میں دیکھنے کا نام بھی بن چکی ہے، اور حضرو اس کی عمدہ مثال ہے۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری


ذوالفقار علی کلہوڑو اینتھروپولوجسٹ ہیں، اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد میں ٹورازم، گلوبلائزیشن، اور ڈویلپمنٹ پڑھاتے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس zulfi04@hotmail.com ہے. انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Kalhorozulfiqar@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.

ذوالفقار علی کلہوڑو

ذوالفقار علی کلہوڑو اینتھروپولوجسٹ ہیں، اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد میں ٹورازم، گلوبلائزیشن، اور ڈویلپمنٹ پڑھاتے ہیں۔

ان سے فیس بک پر رابطہ کریں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔