کھیل

'18 اولمپیئنز مل کر بھی ٹیم کو نہیں جتا سکتے'

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری شہباز احمد سینئر نے کہا ہے کہ پاکستانی ٹیم آئندہ تین چار سال کوئی ایونٹ نہیں جیت سکتی.

ماضی میں دنیائے ہاکی پر حکمرانی کرنے والا چار مرتبہ کا سابق عالمی چیمپیئن پاکستان گزشتہ سال تاریخ میں پہلی مرتبہ ورلڈ کپ تک رسائی حاصل نہ کر سکا اور پھر خدشات کے عین مطابق تین مرتبہ اولمپکس میں سونے کا تمغہ سینوں پر سجانے والی ٹیم آئندہ سال ہونے والے ریو اولمپک کے لیے کوالیفائی بھی نہ کر سکی.

قومی ہاکی ٹیم کے اولمپکس سے باہر ہونے کے بعد پاکستان ہاکی فیڈریشن (پی ایچ ایف ) کے پیٹرن انچیف وزیراعظم نواز شریف نے تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جس کی سفارشات پر پہلے صدر اختر رسول اور پھر سیکرٹری رانا مجاہد رخصت ہوئے اور حیران کن طور پر دونوں کو پھولوں کے ہار پہناکر یوں رخصت کیا گیا جیسے ان کےدور میں پاکستان نے عالمی ٹائٹل جیت کر فتوحات کے جھنڈے گاڑے ہوں۔ فیڈریشن میں تبدیلی ہوئی تو سابق کپتان اور اپنے دور میں ہاکی کے شائقین کے دلوں پر راج کرنے والے شہباز سینئر کو سیکریٹری کا اہم عہدہ سونپا گیا ۔

شہباز سینئر کے دور میں پاکستان کی پہلی آزمائش ملائیشیا میں ہونے والا سلطان آف جوہر جونیئر ہاکی کا ایونٹ تھا لیکن جونیئر ہاکی ٹیم نے ایونٹ میں انتہائی مایوس کن کارکردگی دکھاتے ہوئے چھٹی پوزیشن حاصل کی جس میں ہندوستان کے ہاتھوں 5-1 کی شکست بھی شامل تھی۔

ڈان نے شہباز سینئر سے پاکستان ہاکی کے زوال اور مستقبل کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔

سوال: ورلڈ کپ اور اولمپکس میں کوالیفائی کرنے میں ناکامی کے بعد آپ کو ایک مشکل صورتحال میں پی ایچ ایف سیکریٹری کا عہدہ سونپا گیا ہے، اس پر آپ کیا کہیں گے؟

یہ بالکل درست بات ہے کہ پاکستان ہاکی کا موجود حال دیکھ کر شدید مایوسی ہوتی ہے۔ ٹیم میگا ایونٹس میں کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی تو دوسری جانب میں نے حالیہ دنوں میں ٹیموں کے جو تربیتی کیمپ یا ٹرائلز دیکھے مجھے کوئی ٹیلنٹ نظر نہیں آیا۔ کھلاڑیوں میں نہ تو جوش نظر آیا اور نہ ہی مہارت یا صلاحیت کی جھلک دکھائی دی۔ شاید اس کی وجہ فٹنس کی کمی بھی ہوسکتی ہے لیکن ان کھلاڑیوں کو کھیلتا دیکھ کر بالکل لطف نہیں آیا لیکن میں نے پی ایچ ایف سیکریٹری کاعہدہ چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے۔ اپنے کیریئر کے دوران بھی کوشش ہوتی تھی کہ اپنی کارکردگی سے ٹیم کو ورلڈ کلاس بناؤں اور ٹائٹل جتاؤں، اب سیکرٹری بن کر بھی اسی کوشش میں ہوں۔

سوال : موجودہ حالات میں جب قوم ہاکی ٹیم سے مایوس ہے، آپ مستقبل کے بارے میں کیا کہیں گے ؟

موجودہ حالات میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں کل یا پرسوں سلور یا گولڈ میڈل لے آؤں گا۔ پاکستانی ٹیم آئندہ تین سے چار سال کوئی ٹورنامنٹ نہیں جیت سکتی۔ جن حالات میں ہاکی فیڈریشن سنبھالی ہے اس میں ہم ابتدائی طور پر ہاکی کو ملک بھر میں پھیلا کر زیادہ سے زیادہ ایونٹ کرانا چاہتے ہیں تاکہ پول آف پلیئرز بڑھ سکے۔ ہاکی کے ڈومسیٹک ایونٹ زیادہ سے زیادہ کرانا اس وقت اہم ہے۔

سوال : ہاکی فیڈریشن کے گزشتہ دو عہدیداروں کی کارکردگی پر کیا کہنا چاہیں گے؟

دیکھیں صاف بات ہے کہ اگر مجھے دو یا تین سال فیڈریشن پر کام کرنے کا موقع ملے اور میرے دور میں ہاکی ٹیم کی کارکردگی بہتر نہ ہو تو پھر میرے خیال میں مجھے ہی مجرم تصور کیا جانا چاہیے۔ گزشتہ سات سال میں پاکستان ہاکی کو جتنا نقصان ہوا ہے اسے ٹھیک کرنے میں کم ازکم پانچ سال درکار ہوں گے۔

سوال: ہاکی فیڈریشن کے گزشتہ دو ادوارمیں دی جانے والی کروڑوں روپے کی گرانٹ کے حوالے سے کرپشن کی باتیں کی جاتی رہی ہیں، آڈٹ کرانے کی بھی خبریں سامنے آئیں ،اس معاملے پر کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟

دیکھیں نیا سیٹ اپ سنبھالنے والے عہدیداروں کا یہ کام نہیں کہ وہ گزشتہ ادوار کے فنڈز اور اس کے استعمال کے معاملے پر کوئی تحقیقات کرسکیں، یہ کام وزارت کھیل یا پاکستان اسپورٹس بورڈ کا ہے۔

آڈیٹرجنرل اب اس کو دیکھ رہے ہیں اور اس کا فیصلہ اب وہی کریں گے۔ ہم سے اگر کوئی تعاون مانگا گیا تو اس کے لیے تیار ہیں۔

سوال: گزشتہ دو ادوار میں ہاکی فیڈریشن فنڈز کی کمی کا بھی چرچا کرتی رہی۔ آپ فنڈز اوران کے استعمال پر کیا کہیں گے اور کیا اس معاملے کو پاکستان ہاکی کی موجودہ صورتحال سے جوڑا جاسکتا ہے ؟

میری اطلاع کے مطابق نوے کروڑ کی گرانٹ گزشتہ دو ادوار میں آئی، میں کرپشن کے حوالے سے کوئی بات نہیں کروں گا کیونکہ یہ بات ثبوت والا شخص کرے تو بہتر ہے لیکن یہ ضرورکہوں گا کہ فنڈز کے استعمال کے حوالے سے کوئی نظریہ یا سوچ موجود نہیں تھی۔ اتنی بڑی رقم اگر درست انداز میں صحیح جگہ لگادی جاتی تو آج پاکستان ہاکی کا یہ حال نہ ہوتا ۔

سوال: سابق سیکریٹری آصف باجوہ کے دور میں ملک بھر میں 18 اکیڈمیوں کے قیام کے دعوے کیے گئے، آپ شروع میں اس دور میں ایگزیکٹو بورڈ کا حصہ تھے، آخر ان اکیڈمیوں کا کیا بنا ؟

آصف باجوہ کی درخواست پر میں ایگزیکٹو بورڈ کا حصہ بنا تھا اور میرا اختلاف ہی اکیڈمیوں کے قیام کے اعلان پر شروع ہوا تھا جس کے خلاف میں نے میڈیا میں بیانات بھی دئیے تھے اور پھر میں ایگزیکٹو بورڈ سے علیحدہ ہوگیا تھا ۔

میرا مؤقف تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں اکیڈمیوں کے قیام کے محض اعلانات کرنے سے فائدہ نہیں، چھوٹے پیمانے پر چند اکیڈمیاں بنا کر کام شروع کریں لیکن میری نہ سنی گئی اور میں فیڈریشن سے الگ ہو گیا۔

سوال: آپ کے دور میں پہلی آزمائش جونئیر ہاکی ٹیم کا ملائیشیا میں سلطان آف جوہر جونئیر ہاکی ٹیم میں شرکت تھی لیکن ٹیم بری طرح ناکام رہی اس پر کیا کہیں گے ؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ جونئیر ٹیم کی کارکردگی نے مایوس کیا اور ہماری توقعات سے بھی بری کارکردگی سامنے آئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اس ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے لیکن اب جونئیر ایشیا ہاکی کپ کو ہدف بنا کر تیاری کر رہے ہیں، کوشش ہوگی کہ ٹیم نومبر میں ہونے والے ایشیا کپ کے سیمی فائنل میں جگہ بناکر آئندہ سال ہندوستان میں ہونے والے جونئیر ورلڈ کپ میں جگہ بنائے، اگر ٹیم کوالیفائی کرنے میں کامیاب رہی تو کم از کم دو یورپی ممالک کے دورے طے کریں گے۔

سوال: سینئر ٹیم کا کیا پروگرام ترتیب دیا جارہا ہے کیونکہ ٹیم کے پاس اب چند ماہ تک کوئی سیریز یا ٹورنامنٹ نہیں؟

اولمپکس میں کوالیفائی نہ کرسکنے کے باعث قومی ہاکی ٹیم کی زیادہ مصروفیات نہیں، آئندہ سال جون یا جولائی میں اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں ٹیم بھیجیں گے، اس کے علاوہ ہالینڈ اور آسٹریلیا سے دو طرفہ ہاکی ٹیسٹ پر بات چیت کا آغاز کیا ہے، کوشش ہے کہ ٹیم کو جلد کوئی بین الاقوامی سیریز کھیلنے کا موقع ملے۔

سوال: ملک میں بین الاقوامی ہاکی سیریز بحالی اور پاک انڈیا سیریز کے امکانات کے بارے میں کیا کہیں گے ؟

جب غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آنے کو تیار نہیں تو کیا کریں، اس میں وقت لگے گا، جہاں تک ہندوستان سے سیریز کا تعلق ہے تو موجودہ حالات میں اس حوالے سے کوشش کرنا سود مند نہیں رہے گا۔ شہریار خان اور نجم سیٹھی کے ہندوستان جانے سے جو صورتحال ہوئی وہ سب نے دیکھ لی ہے۔

سوال:آپ کی باتوں سے محسوس ہوا کہ موجودہ ہاکی جنریشن سے آپ مایوس ہوچکے ہیں؟ کیا ان میں بہتری کی گنجائش ہے؟

میں اگر موجودہ ہاکی ٹیم کے اٹھارہ کھلاڑیوں کے ساتھ 18 اولمپئینز بھی لگادوں تو یہ ٹیم کسی ایونٹ میں پہلی پوزیشن بھی حاصل نہیں کرسکے گی۔ یہ سلسلہ پھر یونہی چلتا رہے گا اور مزید کئی سال ضائع ہوجائیں گے۔ میرے خیال میں بہتر یہی رہے گا کہ آئندہ تین سالوں میں نئی منصونہ بندی سے کام کیا جائے، لوگوں کی باتوں کا دباؤ نہ لیا جائے، گراس روٹ لیول ہاکی اور کالجز میں ہاکی شروع کر کے نیا ٹیلنٹ ڈھونڈا اور پالش کیا جائے تو تین سال بعد ہم کچھ بہتر نتائج دینے کی پوزیشن میں آسکیں گے۔