اگلے مرحلے میں پولیس، وکلاء اورگواہوں پر حملے میں ملوث دہشتگردوں،اجرتی قاتلوں اورسہولت کاروں کو گرفتارکیاجائے گا، رینجرز
ویب ڈیسک
کراچی: سندھ رینجرز کا کہنا ہے کہ کراچی آپریشن کے اگلے مرحلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں بالخصوص پولیس، وکلاء اور گواہوں پر حملے میں ملوث دہشت گردوں، اجرتی قاتلوں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا جائے گا اور ان عناصر کا خاتمہ کیا جائے گا۔
رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کا عکس—۔ رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان عناصر کی اطلاع فوری طور پر رینجرز ہیلپ لائن 1101 پر ایس ایم ایس/کالز اور ای میل کے ذریعے دیں۔
ستمبر 2013 میں شہرِ قائد کو دہشت گردوں، قبضہ مافیا اور جرائم پیشہ افراد سے چھٹکارا دلانے کے لیے پولیس اور رینجرز کا ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا گیا تھا، جس میں پہلے مرحلے میں لیاری میں گینگ وار کا خاتمہ کیا گیا جبکہ اس کے بعد پورے شہر میں کارروائیاں تیز کر دی گئیں۔
رواں برس مارچ میں کراچی کے علاقے صفورہ گوٹھ میں اسماعیلی برادری کی ایک بس پر دہشت گردوں کے حملے میں 40 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد ملک کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت نے کراچی آپریشن میں تیزی لانے اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں:سیاسی و عسکری قیادت کا کراچی آپریشن تیز کرنے کا فیصلہ
کراچی آپریشن کو 2 سال مکمل ہونے پر رینجرز اور پولیس حکام کی مشترکہ بریفنگ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آپریشن کے نتیجے میں جرائم کی شرح میں 60 سے 70 فیصد کمی آئی ہے.
حکام کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے واقعات 60 اور ڈکیتی کی وارداتیں بھی 65 فیصد کم ہوگئی ہیں جبکہ بھتہ خوری میں بھی 70 فیصد کمی آئی ہے۔
رینجرز کے کرنل امجد کے ہمراہ پریس بریفنگ میں کراچی پولیس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران 913 دہشت گرد اور 550 ٹارگٹ کلرز گرفتار کیے گئے جبکہ 15 ہزار 400 غیرقانونی ہتھیار بھی برآمد کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ 5 ستمبر 2013 سے اب تک 232 پولیس افسران واہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی آپریشن: جرائم کی شرح میں 70 فیصد کمی
اسٹریٹ کرائم پر قابو پانے کا تو دعویٰ تو کیا گیا البتہ کراچی پولیس کے سربراہ مشتاق مہر نے کہا کہ موبائل فون چھیننے کی وارداتیں کم کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
بریفنگ میں رینجرز کے افسر کرنل امجد کا کہنا تھا کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف لڑتے ہوئے رینجرز کے 23 جوان شہید اور 85 زخمی ہوئے۔
حکام کا کہنا تھا کہ 2015 میں کاریں چھیننے کے واقعات میں کمی آئی مگر موٹر سائیکلوں کی چوری اور چھینا جھپٹی میں اضافہ ہوا۔
بریفنگ کے دوران کراچی میں تھانوں کے نظام میں بہتری لانے اور مجرمان کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔
ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر کا کہنا تھا کہ حکومت سے انسداد دہشت گردی عدالتوں کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے، ہائی پروفائل کیسز فوجی عدالتوں کو بھیجے جائیں گے۔
رواں برس کراچی آپریشن میں تیزی لائی گئی ہے اور سیاسی جماعتوں میں موجود افراد کے خلاف بھی ایکشن لیا گیا جبکہ زمینوں پر قبضہ کرنے والے گروہوں کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جارہا ہے.