خواجہ ناظم الدین: وزارتِ عظمیٰ سے تنگدستی تک
خواجہ ناظم الدین کا شمار پاکستان کے ان ممتاز سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں ان کے ناقدین بھی بیک زبان یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ ایک شریف النفس اور ایماندار سیاست دان تھے۔ ان کا دورِ حکومت کئی حوالوں سے اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے دور میں ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ ہوا، گو کہ یہ مارشل لاء صرف لاہور تک محدود تھا۔
اس دور میں ایک فوجی عدالت نے جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی۔ ان کے دور میں کراچی میں طلباء نے فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا تو پولیس کی جانب سے احتجاجی طلباء پر گولی چلائی گئی۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جنہیں گورنر جنرل نے برطرف کردیا تھا۔
ان کے دورمیں مارشل لاء کے نفاذ سے لے کر طلبا کی ہلاکتوں اور وزیرِ اعظم کی برطرفی کی ایسی روایتیں شروع ہوئیں جو آج 67 برس گذرنے کے بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ آج بھی ملک کی سٹرکوں پر طلبا اور والدین فیسوں میں من مانے اضافے کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ وزرائے اعظم کی برطرفیاں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے وزیراعظم نوازشریف کی دور بینی کا یا شاید ان کے کسی مشیرِ باتدبیر کا جس نے بتایا ہوگا کہ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کی ایک بڑی وجہ مذہبی انتہا پسندی اور دوسری طلباء تحریک کے دوران طالب علموں کی ہلاکت تھی۔ غالباً اسی لیے انہوں نے فیسوں میں اضافے کا فوری نوٹس لیا اور اسی طرح انتہاء پسندی کے خلاف مہم میں بھی ثابت قدم ہیں۔
خواجہ ناظم الدین اور وزیر اعظم میاں نوا زشریف کے درمیان ایک بڑی قدرِ مشترک ان کی خوش خوراکی بھی ہے۔ پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اپنے ایک انٹرویو میں، جو معروف صحافی منیر احمد منیر نے اپنی کتاب ”سیاسی اتار چڑھاؤ“ کے صفحہ نمبر 96، 97 پر شائع کیا ہے، میں کہا تھا:
"کھاتے یہ بھی بہت تھے۔ جب یہ بنگال (مشرقی پاکستان) میں چیف منسٹر تھے تو ان کے اس وقت کے ایک سیکریٹری نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ کسی نے رات کے کھانے کی دعوت دی تو مان لیا کہ 8 بجے آئیں گے۔ دو تین دن بعد اسی دن کی دعوت کسی اور نے دی تو انہوں نے کہا اچھی بات ہے 7 بجے آ جائیں گے۔ دو تین دن بعد کسی اور نے بھی اسی دن کی دعوت دے دی تو کہا اچھی بات ہے آپ کے یہاں 9 بجے آ جائیں گے۔
"ایک دن میں تین دعوتیں مان لیں 7 بجے، 8 بجے اور 9 بجے۔ سات بجے والی دعوت میں اچھی طرح سے کھایا، وہاں سے 8 بجے والی دعوت میں پہنچے، ابھی درمیان میں ہی تھے کہ طبیعت خراب ہو گئی، گھر تشریف لائے اور ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ صبح سیکریٹری حاضر ہوا تو اسے کہا ارے میاں وہ ٹیلی فون کرو تیسری جگہ، سیکریٹری نے کہا جی وہ تو رات کو ہی کر دیا تھا کہ طبیعت خراب ہو گئی ہے تشریف نہیں لا سکتے۔ کہنے لگے نہیں نہیں وہاں سے دریافت کرو انہوں نے پکایا کیا تھا۔ جب سیکریٹری نے مجھے یہ واقعہ سنایا تو میں نے اس پر یہ شعر عائد کر دیا۔
نہ کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
ان کے یہاں کھانا اتنا لذیز ہوتا تھا جومیں نے کہیں اور دیکھا نہیں۔"
یہ تو ان کی خوش خوراکی عالم تھا تقسیم ہند کے بعد،لیکن تقسیم سے قبل بھی ان کی خوش خوراکی اور ان کے نتیجے میں طبیعت خراب ہونے کا واقعہ مرزا ابوالحسن اصفہانی نے اپنی کتاب ”قائد اعظم محمد علی جناح میری نظر میں“ کے صفحہ نمبر 137، 136پر یوں بیان کیا ہے:
”مجھے یاد ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے رکن اور بنگال کے ایک محترم سیاسی رہنما خواجہ ناظم الدین اپریل 1946 کے پہلے ہفتے میں نئی دہلی میں سخت بیمار پڑ گئے اور ایک ہلکے سے دورہ قلب کے بعض آثار نمایاں ہوگئے۔ انہیں فوراً اسپتال پہنچایا گیا اور ایک پرائیوٹ مریض کے طور پر داخل کردیا گیا۔ ہم لوگ مسٹر جناح کے مکان پر جمع تھے کہ ہم نے یہ خبر سنی کہ ان کی بیماری خطرناک ہے۔ راجہ صاحب محمود آباد اور میں نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے بیمار دوست اور رفیق کار کو جاکر دیکھیں۔ ہم اسپتال پہنچے جہاں ہمیں یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ خواجہ ناظم الدین صاحب اپنے کمرے میں اِدھر ادھر ٹہل رہے ہیں۔ اور بالکل خوش و خرم ہیں۔ انہوں نے ہمیں یہ خوشخبری دی کہ ان کے دل میں کوئی خرابی نہ ہوئی تھی بلکہ انہیں بد ہضمی کی شکایت ہوگئی تھی جس کا باعث کھانے میں بد پرہیزی تھی۔“
معروف صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن حسین نقی کے مطابق:
"1952ء کے اواخر اور 1953ء کے شروع ہوتے ہی طلبہ نے اپنے گوناگوں مسائل کے حل کے لیے مظاہرے کیے جس کی قیادت ڈی ایس ایف گرلز اسٹوڈنٹس کانگریس اور انٹر کالجٹ باڈی کر رہی تھیں۔ اس کا نقطہء عروج 8جنوری 1953ء کی صبح تھی جب کراچی کی انتظامیہ نے طالب علموں کے جلوس پر کئی بار فائرنگ کر کے کم از کم ایک درجن طالب علموں اور شہریوں کو ہلاک اور کافی تعداد میں افراد کو زخمی کر دیا۔
"ابھی حکومت کی باگ ڈور سیاست دانوں کے پاس تھی۔ خواجہ ناظم الدین وزیرِ اعظم، مسٹر فضل الرحمٰن وزیرِ تعلیم، جبکہ نواب گورمانی وزیر داخلہ تھے۔ حکومت نے انتظامیہ کی فائرنگ سے لاتعلقی اور طالب علموں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ یہ اس حادثہ سے پہلے بھی ممکن تھا، مگر پھر بھی برطانوی دورِ اقتدار کی انتظامیہ جس کی گرفت پاکستان پر اس وقت تک کافی مضبوط ہو چکی تھی، اس مسئلے کو امن و امان اور قانون کی خلاف ورزی کے تناظر میں ہی سمجھنا اور حل کرنا چاہتی تھی۔ اس تحریک نے مغربی پاکستان بھر میں طالبعلم برادری میں ایک احساسِ یگانگت پیدا کیا اور اس کی عملی کامیابی نے ڈی ایس ایف کو ایک مقبول طالبعلم تنظیم کی حیثیت دی۔"