نقطہ نظر

ساحر لدھیانوی: تلخیاں سمیٹتا شاعر

ساحر مبلغ تھے نہ مصلحت پسند، مگر ان کے اندر اپنے ماحول کے خلاف بغاوت کا جذبہ موجود تھا۔

میں پل دو پل کا شاعر ہوں

پل دو پل مری کہانی ہے

پل دو پل میری ہستی ہے

پل دو پل مری جوانی ہے

مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے

اور آ کر چلے گئے

کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے

کچھ نغمے گا کر چلے گئے

وہ بھی اک پل کا قصہ تھے

میں بھی اک پل کا قصہ ہوں

کل تم سے جدا ہو جاؤں گا

گو آج تمہارا حصہ ہوں

کل اور آئیں گے نغموں کی

کھلتی کلیاں چننے والے

مجھ سے بہتر کہنے والے

تم سے بہتر سننے والے

کل کوئی مجھ کو یاد کرے

کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے

مصروف زمانہ میرے لیے

کیوں وقت اپنا برباد کرے

ساحر لدھیانوی پر کبھی نوجوانوں کا شاعر تو کبھی فلمی شاعر جیسے لیبل لگا کر ان کی ادبی صلاحیتیوں سے انکار کی کوشش کی گئی مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ ساحر پل دو پل کے شاعر نہیں تھے اور انہوں نے جو کچھ کہا وہ کارِ زیاں نہیں تھا۔

ساحر لدھیانوی کا حقیقی نام عبدالحئی تھا۔ انہوں نے بچپن اور نوجوانی میں بہت ہی سختیاں جھیلی تھیں۔ 1937ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخل ہوئے مگر اپنی بے توجیہی کے سبب وہاں سے نکالے گئے۔ پھر دیال سنگھ کالج کا رخ کیا جہاں ایک معاشقے کے سبب انہیں کالج سے خارج کر دیا گیا۔ پھر انہوں نے شاعری کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کا شعری مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ شائع ہو چکا تھا جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔

ساحر لدھیانوی کا گھرانہ علمی و ادبی نہ تھا۔ نہ اسے شاعری ورثے میں ملی، نہ ان کی آنکھ کسی خوبصورت پاکیزہ ماحول میں کھلی۔ ماحول نے ان کو بے اطمینانی اور بے کیفی دی۔ وہ اس ماحول میں خود کو اجنبی محسوس کرنے لگے۔ معاشرے کا زہر ان کی رگ و پے میں سرایت کر گیا اور پھر انہوں نے اس زہر کا تریاق شاعری میں ڈھونڈا۔ اپنے نفرت کے جذبے کو تسکین دینے اور معاشرے کو اس کا کوڑھ زدہ چہرہ دکھانے کے لیے انہوں نے شاعری کا سہارا لیا جو ان کو قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی تھی۔

ساحر مبلغ تھے نہ مصلحت پسند، مگر ان کے اندر اپنے ماحول کے خلاف بغاوت کا جذبہ موجود تھا۔ ان کی نظم ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں ان کے جذبات کی عکاس اور ان کے ماحول کے تجزیے کی بہترین نظم ہے

یہ اٹھتی نگاہیں حسینوں کی جانب

لپکتے ہوئے پاؤں زینوں کی جانب

یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب

ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی

پیغمبر کی امت زلیخا کی بیٹی

ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں

بلاؤ خدایانِ دین کو بلاؤ

یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ

ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کو لاؤ

ثنأ خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں

ساحر کا سفر تب شروع ہوا تھا جب ان کے جاگیردار باپ نے تین چار برس کی عمر میں انہیں والدہ کے ہمراہ گھر سے نکال دیا تھا۔ ان کا باپ ایک روایتی زمیندار تھا جو اپنی زمینیں بیچ بیچ کر شادیاں کرتا تھا۔ ساحر کی زندگی کا یہ سفر لدھیانہ میں ریلوے لائن کنارے ایک چوبارے سے شروع ہوا اور بمبئی میں ساحل سمندر کے کنارے ایک فلیٹ میں ختم ہو گیا۔ بیچ کی ساری زندگی ساحر دنیا کی بھیڑ میں محبت و یقین کی پناہیں تلاشتے رہے۔

ان کے کئی معاشقے زبان زدِ عام ہوئے۔ لدھیانہ گورنمنٹ کالج سے انہیں نکالا گیا۔ اس واقعے نے ان کے اندر جو زخم لگایا وہ شاعری کی صورت پھوٹ بہا۔ مجبوریوں اور مشکلوں کے اس دور میں ساحر نے کبھی اپنی ذاتی مشکلات دور کرنے یا زندگی بنانے پر توجو نہیں دی۔ البتہ ان کی ایک آرزو کسی سے مخفی نہیں تھی۔ فلمی گیت لکھنے اور اس میدان میں جھنڈے گاڑنے کی آرزو، اور آخر کار وہ اس میں کامیاب رہے۔ فلموں کے لیے ایسے لازوال گیت لکھے کہ جو کئی دہائیوں بعد آج بھی تر و تازہ محسوس ہوتے ہیں۔

ساحر کا پہلا مجموعہ "تلخیاں" جذباتی، رومانوی اور انقلابی شاعری کا دلچسپ امتزاج تھا۔ اس کا مقدمہ احمد ندیم قاسمی نے لکھا۔ اس مجموعے کی ایک نظم 'تاج محل' مغل بادشاہ کی تعمیر کا مذاق تھا۔ اس نظم نے ساحر کو ہندوستان میں شہرت بخشی

ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

ساحر کی رنگ پر آئی ہوئی شاعری تین دہائیوں پر پھیلی ہے۔ ساحر کے ہاں شور و پکار نہیں احتجاج ہے۔ شان و شکوہ نہیں ڈرامائی تناؤ ہے۔ طمطراق نہیں بلکہ ہر ایک منظر اپنی اذیت یا مسرت کا اظہار ہے۔ مصرعے ان کے ہاں اکھڑے ہوئے ملتے ہیں

"یہ سب کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے"

"ٹکٹکی باندھ کے تکتا ہوا استادہ ہے"

"اس لیے اے شریف انسانو"

"کیوں کہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے"

یہ مصرے نثر کے ایسے جملے محسوس ہوتے ہیں جن پر فنکار نے شاعرانہ رندا نہیں پھیرا۔ جیسے زبان پر آ گئے ویسے ہی رکھ دیے۔ انہوں نے نظمیں لکھیں، گیت لکھے، مگر غزلیں بہت کم، لیکن ایک غزل تو ان کی ایسی ہے کہ اس فن کا جوہر شناس حیرت زدہ رہ جائے۔ یہ پورم پوری غزل ہے، زبان کا لطف دیتی ہے

جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی

ازسرِ نو داستانِ شوق دہرائی گئی

بک گئے جب تیرے لب پھر تجھ کو کیا شکوہ اگر

زندگانی بادہ و ساغر سے بہلائی گئی

اے غمِ دنیا! تجھے کیا علم تیرے واسطے

کن بہانوں سے طبعیت رہ پر لائی گئی

ہم کریں ترکِ وفا اچھا چلو یوں ہی سہی

اور اگر ترکِ وفا سے بھی نہ رسوائی گئی

کیسے کیسے چشم و عارض گردِ غم سے بجھ گئے

کیسے کیسے پیکروں کی شان زیبائی گئی

دل کی دھڑکن میں توازن آچلا ہے خیر ہو

میری نظریں بجھ گئیں یا تیری رعنائی گئی

ان کا غم، ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں

اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئیں

جرأت انساں پہ گو تادیب کے پہرے رہے

فطرتِ انساں کو کب زنجیر پہنچائی گئی

عرصہء ہستی میں اب تیشہ زنوں کا دور ہے

رسمِ چنگیزی اٹھی، توقیر دارائی گئی!

ساحر لوگوں سے بے نیاز رہے۔ بے نیازی کی یہ ادا ان کی نظموں سے جگہ جگہ جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ ایک نظم کے اشعار کچھ یوں ہیں

تو میری جاں، مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ

ہم میں کوئی بھی جہانِ نور و جہاں گیر نہیں

تو مجھے چھوڑ کے ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے

تیرے ہاتھوں میں میرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں

ساحر نے اپنے تین دہائیوں پر محیط شعری سفر کے دوران ملک و قوم اور بین الاقوامی سانحوں کو اچھی طرح دل و دماغ میں بسا کر انہیں ایسے ڈھب میں پیش کیا کہ سننے والے کی زبان و حافظہ اسے اپنا لے۔ "میں نہیں تو کیا"، "یہ کس کا لہو ہے"، "میرے گیت تمہارے ہیں"، "نور جہاں کے مزار پر"، "جاگیر"، "مادام"، "لہو نذر دے رہی ہے آواز"، "آوازِ آدم"، "خوبصورت موڑ"، "لمحہ غنیمت"، ان کی مشہور و معروف نظم "تاج محل" سے بھی بہتر اور کھڑی نظمیں ہیں۔ یہی ان کی شاعری کا معیار مقرر کرتی ہیں۔

ساحر کی شاعری آج کی شاعری ہے۔ اس کے تین ادوار مقرر کیے جا سکتے ہیں۔ رومان، حقیقت اور رومان۔ پہلا رومان ابتدائے شباب کا سانحہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد حقیقت کا دور ہے جس پر کارل مارکس کا اثر لگتا ہے۔ تیسرا دور بھی کسی رومان سے متعلقہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں نئی اٹھان ہے جو پہلے رومانی دور سے قطعی مختلف ہے۔ وہ خود ایک جگہ کہتے ہیں

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

درمیانی دور میں انہوں نے انقلابی و حقیقت پسندانہ شاعری کی ہے۔ ایک شعر ان کا ایسا ہے جو صرف ایک جہاندیدہ اور بہت تجربہ کار شاعر ہی کہہ سکتا ہے

ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت، اے مطرب

ابھی حیات کا ماحول خوشگوار نہیں

اور ماحول کی ناسازگاری کا باعث نوکر شاہی، سرمایہ داری اور اجنبی حکومت کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ ساحر کے تجربات نہایت تلخ ہیں اس لیے وہ عشق و محبت کے پوشیدہ شعلوں کو بھڑکانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ یہ کہہ کر بجھا دیتے ہیں کہ

آہ اس کشمکشِ صبح و شام کا انجام

میں بھی ناکام میری سعی عمل بھی ناکام

یہاں سے آگے ساحر کی نظموں میں عشق و محبت کا ذکر گھٹا گھوپ اندھیرے میں کوندے کی طرح چمک کر غائب ہو جاتا ہے اور کارل مارکس کے ایک مخلص مرید کی طرح، "تمہارے غم کے سوا اور بھی تو غم ہیں مجھے" کہہ کر ایک اور راہ اختیار کر لیتا ہے جہاں قدم قدم پر بھوک، افلاس، انسانیت کی آہ و پکار، بے کفن لاشوں، زرد بچوں، بلکتے ہوئے چہروں، محکومی اور سب سے زیادہ جاگیردارانہ نظام کی غلط تقسیم سے نمٹنا پڑتا ہے۔ "سوچتا ہوں"، "ناکامی"، "مجھے سوچنے دو"، اور "گریز" جیسی نظموں میں ساحر نے اردگرد پھیلی ہوئی ہولناک ظلمتوں سے نکل جانے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی روح مضحمل ہے، ان کے حوصلے شَل ہیں۔ وہ جب وطن کی غربت مجبوری اور غلامی کو دیکھتے ہیں تو صرف اتنا کہتے ہیں

"یہ غم بہت ہیں میری زندگی مٹانے کو"

اور

"مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے"

اور

"میرے بے چین خیالوں کو سکوں مل نہ سکا"

اور

"جو سچ کہوں تو مجھے موت ناگوار نہیں"

ان کی نظم "گریز" میں تذبذب اپنے عروج پر ہے اور اس نظم کا یہ شعر کتنا بے مثال اور مکمل ہے

ہر ایک ہاتھ میں لے کر ہزار آئینے

حیات بند دریچوں سے بھی گزر آئی

پھر ساحر یکدم گھبرا کر غیض و غضب کے عالم میں اگلے شعروں میں کہتے ہیں

وہ پھر کسانوں کے مجمع پر گن مشینوں سے

حقوق یافتہ طبقے نے آگ برسائی

1944 میں بنگال کے قحط نے انہیں شدید متاثر کیا، اسی اضطراب نے ان سے قحطِ بنگال جیسی نظم لکھوائی

یہ شاہراہیں اسی واسطے بنیں تھیں کیا

کہ ان پر دیس کی جَنتا سسک سسک کے مرے

زمین نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا

کہ نسلِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے

مِلیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں

کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں

چمن کو اسی لیے مالی نے خون سے سینچا تھا

کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں

ساحر کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سیدھی سادی زبان اور عام فہم الفاظ کے ذریعے اپنے سچے خیالات و جذبات کو پیش کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ تلخیاں کی پہلی نظم "ردِعمل" پڑھیے

چند کلیاں نشاط کی چن کر

مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں

تیرا ملنا خوشی کی بات سہی

تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

دھیمی لَے، آسان زبان اور مانوس الفاظ میں ان کی پہلی نظم ہی محبت بھرے دل کی کہانی سناتی ہے جس میں ناکامی کا شدید احساس ملتا ہے۔ تقریباً یہی تاثرات ان کی تمام نظموں کو پڑھنے سے ملتے ہیں۔

25 اکتوبر 1980ء کو غمِ دوراں اور جاناں جھیلتے اس شاعر کا ممبئی میں انتقال ہو گیا اور وہیں قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ ان کی قبر پر ان کے چاہنے والوں نے ایک مقبرہ تعمیر کیا تھا لیکن جنوری 2010ء میں اسے منہدم کر دیا گیا۔ اب ان کی قبر کا بھی کچھ نشان پایا نہیں جاتا۔ انسان کے شدتِ احساس نے شاعری کو جنم دیا۔ تفکر کی گہرائی نے اسے پروان چڑھایا۔ مشاہدے کی ہمہ گیری اور ماحول کے اثر نے اس میں رنگ بھرے۔

ساحر کی شاعری میں جن خصوصیات نے مجھے متاثر کیا ان میں احساس کی شدت بہت نمایاں ہے۔ میں ساحر کی خصوصیات گنوا کر اور اس کے کلام سے مثالیں پیش کر کے اس تحریر کو مزید طول نہیں دینا چاہتا۔ ان کے کلام سے کوئی بھی نظم لے لیجیے، اس میں احساس کی گہرائی گندھی ہوئی محسوس ہو گی۔ آخر میں ساحر کے کلام سے اپنی پسند کی نظم پیش خدمت ہے۔

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی

نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے

نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے

نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے

تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے

مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں

مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی

تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں

تعارف روگ بن جائے تو اس کو بھولنا بہتر

تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا ہو ناممکن

اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

سید مہدی بخاری

لکھاری یونیورسٹی آف لاہور کے کریئٹیو آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔

ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں: سید مہدی بخاری فوٹوگرافی

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔