بلاک شناختی کارڈ کا سر درد
یہ بات درست ہے کہ نیشنل ایکشن پلان (نیپ) کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات میں کافی حد تک کمی آئی ہے یا اگر یوں کہا جائے کہ پہلی بار دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے حقیقی کام شروع کیا گیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اگر یہ کام بہت پہلے کر لیا جاتا تو آج ہمارے 50 ہزار سے زائد بے گناہ سکیورٹی اہلکار اور عام لوگ دہشت گردی کی بھینٹ نہ چڑھتے۔
نیپ کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین اور دیگر مشکوک سرگرمیوں میں ملوث غیر ملکیوں کے شناختی کارڈز کی جانچ پڑتال کے عمل کو بھی سراہا جانا چاہیے اور یقیناً یہ کام بھی بہت پہلے کرنا چاہیے تھا لیکن دیر آید درست آید کے مصداق اب اس کام کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم تر و تازہ رہنا چاہیے تاکہ دہشت گردوں کا حقیقت میں خاتمہ ہو سکے اور ملک کے کونے کونے میں امن و امان بحال ہو۔
نیپ کے تحت ہونے والی کارروائیوں کے علاوہ نادرا بھی اپنے تئیں سکیورٹی اداروں سے تعاون کر رہا ہے اور مشکوک افراد کے شناختی کارڈز کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اب تک ہزاروں افراد کے شناختی کارڈ شک کی بناء پر بلاک کیے جا چکے ہیں، چنانچہ نادرا کے دفاتر میں ہر وقت لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور ہر کوئی اپنا مسئلہ لیے لمبی قطار میں اپنی باری کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن نادرا کے عملے کے پاس پریشان حال لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے وقت ہے اور نہ ہی کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ ان کے شناختی کارڈز کو کہاں سے، کس نے اور کیوں بلاک کیا ہوا ہے۔
میرے ایک قریبی عزیز کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا اور وہ بے چارہ تھکا ہارا اپنا دکھڑا میرے پاس لے آیا۔ میں ان کا شناختی کارڈ نمبر لے کر نادرا کے ہیڈ آفس اسلام آباد میں پی آر او کے پاس گیا تو وہاں بتایا گیا کہ شناختی کارڈ ہولڈر کو متعلقہ نادرا آفس جا کر ریجنل ڈائریکٹر سے مل کر مطلوبہ فارم پر کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ خاندان کے تمام افراد جن کے شناختی کارڈ بنے ہوئے ہیں، ان کے کارڈز کی فوٹو کاپیاں لگا کر جمع کروانی ہوگی اور وہاں انٹرویو بھی کیا جائے گا تاکہ تمام تر کمی بیشی پوری کی جا سکے۔
اس کے بعد نادرا کا ریجنل ڈائریکٹر اسی فارم کو صوبائی دارالحکومت میں واقع نادرا کے آفس میں جمع کروائیں گے اور پھر وہاں تصدیق کا عمل مکمل ہونے کے بعد یہ فارم متعلقہ ضلعی سکیورٹی اداروں کو بھجوایا جائے گا۔ سکیورٹی ادارے اپنے طرز کی تفتیش کے بعد اسی فارم کو دوبارہ نادرا آفس بھجوائیں گے اور پھر نادرا والوں کی مرضی ہے کہ وہ اپنی طرف سے تصدیق کے عمل میں کتنا وقت لگاتے ہیں۔
نادرا کے پی آر او کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ یہ عمل مکمل ہونے میں کم از کم ایک سے ڈیڑھ مہینہ لگے گا۔ اب یہ کوئی نہیں بتا رہا کہ آخر شناختی کارڈ بلاک ہونے کی وجہ ہے کیا؟ ایک دوست کے ذریعے چیئرمین نادرا کے پروٹوکول افسر سے بات ہوئی تو ان کا فرمانا تھا کہ یہ شناختی کارڈ نادرا کی جانب سے نہیں بلکہ امیگریشن اور پاسپورٹ والوں کی طرف سے بلاک کیا گیا ہے کیونکہ میرے عزیز سعودی عرب میں جاب کر رہے ہیں۔
لہٰذا نادرا کے افسر کے کہنے کے بعد پاسپورٹ آفس گئے۔ وہاں کے ڈائریکٹر جاننے والے تھے، انہوں نے ریکارڈ چیک کرنے کے بعد بتایا کہ شناختی کارڈ بلاک کرنے کا تعلق پاسپورٹ آفس سے ہے ہی نہیں۔ پھر ڈائریکٹر صاحب نے ضلعی نادرا دفتر مردان میں موجود اپنے ایک دوست کو فون کیا اور ہمارے مسئلے کا بتا کر ہمیں آفیشل مہر اور دستخط کے ساتھ ایک لیٹر بھی دیدیا۔ نادرا کے آفس گئے تو وہاں پھر وہی پرانی فریاد۔ نادرا والوں کا کہنا تھا کہ جو فارم آپ لوگوں نے جمع کروایا تھا وہ پشاور کے نادرا آفس میں پڑا ہوا ہے، وہاں سے تصدیق کے مرحلے سے گزرنے کے بعد مردان میں پولیس لائن یا سیکیورٹی اداروں کو بھجوایا جائے گا اور پھر واپس نادرا کے آفس میں آکر اس کی حتمی تصدیق کی جائے گی، اور یوں اس پر مزید ایک مہینہ یا اس سے زائد وقت لگے گا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ میرے عزیز کی چھٹی کم رہ گئی تھی۔ یہ تو بھلا ہو میرے ساتھ آفس میں کام کرنے والے میرے ایک سابق اور سینیئر کولیگ اور دوست کا جن کے تعاون سے یہ معاملہ اب حل ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے لیکن اب بھی مکمل حل ہوا نہیں ہے۔
نادرا کے ریکارڈ میں ہر آدمی کا شجرہ نسب یعنی فیملی ٹری بنا ہوا ہے۔ اگر ایک آدمی کے فیملی ٹری میں صرف ایک شخص کا شناختی کارڈ صرف افغان مہاجر یا افغان قوم کو بنیاد بنا کر بلاک کیا جا رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ شک کی بنیاد پر سارے خاندان کے شناختی کارڈ بلاک کیے جا سکتے ہیں۔ پھر تمام فارم پر کرنے اور دستاویزات فراہم کرنے کے باوجود بھی اتنا وقت لگتا ہو تو پھر صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ نادرا کا اللہ ہی حافظ۔ اگر کسی وجہ سے خفیہ اداروں کی جانب سے کسی کا شناختی کارڈ بلاک کیا گیا ہے تو بھی متاثرہ شخص کو بتا دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے شناختی کارڈ کو جلد از جلد بحال کروانے کے لیے اقدامات کرے۔
اس سارے عمل کے دوران نادرا کے دفاتر اور پاسپورٹ آفس میں جس طرح عام لوگوں کو خوار ہوتے اور لڑتے جھگڑتے دیکھا، وہ بیان سے باہر ہے۔ عوام کی خدمت کا علم اٹھائے ان سرکاری اداروں میں عوام کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، عملے کا ایک اہلکار بھی بمشکل ہی کسی سے مسکرا کر بات بھی کرتا ہو، ہر اہلکار خود ایک افسر ہے اور وہ کسی کی بھی نہیں سنتا، بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ جہاں کہیں سے کسی خوش قسمت کی سفارش آگئی، اس کی تو جیسے لاٹری نکل آتی ہے؛ وہ خوشی خوشی اپنا کام کروا کر نکل جاتا ہے اور عام آدمی صبح سویرے آکر بھی سارا دن خوار ہو کر شام کو بغیر اپنا کام نمٹائے واپس جاتا ہے اور اگلے روز پھر آکر قطار میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ نادرا والے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے عام غریب اور لاچار لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے ہوئے ان کے مسائل حل کرنے میں مدد کریں اور جہاں کہیں کوئی مسئلہ ہو، اس کی نشاندہی کر کے متاثرہ شخص کی رہنمائی بھی کرے تاکہ شناختی کارڈ بلاک ہونے پر پہلے سے پریشان شخص مزید پریشان نہ ہو۔
نادرا کو چاہیے کہ عام آدمی کی پہلی فرصت میں رہنمائی کر کے انہیں بتایا جائے کہ ان کے شناختی کارڈ کی تجدید اور اس سے متعلقہ تمام مسائل کے حل کے لیے اس کو کہاں کہاں کے چکر لگانے پڑیں گے، ان کے مسائل کا آسان حل کیا ہو سکتا ہے اور اس کے لیے ان کو کیا کیا دستاویزات چاہیے ہوں گی۔
شناختی کارڈ بلاک ہونے کا مطلب صرف مشتبہ ہونا ہے، دہشتگرد ثابت ہونا نہیں۔ جب تک ثابت نہ ہو، تب تک یہ تمام افراد پاکستان کے معزز شہری ہیں، ان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جانا چاہیے. اس حوالے سے تمام مراحل کو آسان اور شفاف بنانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں نہ کہ پریشانیاں۔
ارشد اقبال پشتو نیوز چینل خیبر نیوز اسلام آباد میں سب ایڈیٹر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔