نقطہ نظر

خوف پھر جیت گیا

شیو سینا ماضی میں بھی ایسے ہی ہتھکنڈے استعمال کر کے پاک و ہند کرکٹ منسوخ کروانے میں پیش پیش رہی ہے.

برصغیر میں جہاں کھیل سیاست کا شکار ہو رہے ہیں، وہیں خود سیاست بھی ایک کھیل بن چکی ہے۔ یہاں خواندگی کی شرح ترقی یافتہ ممالک سے کہیں کم ہے اور سیاسی شعور کے لحاظ سے بھی یہ خطہ دیگر علاقوں سے کہیں پیچھے ہے، اس لیے حریف کو پچھاڑنے کے لیے جو مختلف داؤ پیچ استعمال کیے جاتے ہیں، ان میں 'خوف' کا حربہ بہت کارگر ہے۔

سیاست دان ایک قوم کو دوسری قوم کا خوف دلاتے ہیں، مختلف مسالک، مذاہب اور فرقے کے ماننے والوں کو بھی ایک دوسرے سے ڈراتے ہیں اور ایک زبان بولنے والے بھی دوسری زبان والوں سے ڈرائے جاتے ہیں۔ اس 'خوف' سے ایسا ماحول ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں ہم مسلک، ہم مذہب، ہم فرقہ و ہم زبان افراد کا ووٹ پکا ہوجائے۔ پھر جہاں سیاسی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے، وہیں پر خوف پھیلانے کا بٹن دوبارہ دبا دیا جاتا ہے۔

ہمیں وطن عزیز میں جہاں لشکر، حزب، تحریک، موومنٹ اور جیش دکھائی دیتے ہیں، وہیں ہندوستان میں خوف کی سیاست پھیلانے والا ایک اہم کردار شیو سینا ہے۔ بقول شاعر "وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا"، طریقہء واردات وہی ہے، خوف ہر وقت پھیلا رہنا چاہیے تاکہ سیاست چمکتی رہے۔

پاک و ہند کرکٹ سیریز کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ یقین جانیں، دسمبر میں طے شدہ اہم ترین سیریز کے امکانات ایک فیصد بھی نہیں ہیں لیکن 'اندھیروں کے پالے' آخر روشنی کی ایک کرن کو بھی کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ ہندوستانی کرکٹ بورڈ کے سربراہ شاشنک منوہر نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو ملاقات کے لیے کیا مدعو کیا، یہ بن بلائے مہمان اُن سے پہلے پہنچ گئے۔ پاکستان کے خلاف مجوزہ سیریز کے خلاف احتجاج کیا اور نعرے بازی بھی کیں۔

فی الحال اِس بات کو چھوڑ دیں کہ شیو سینک منوہر کے دفتر میں کیسے داخل ہوئے، ان کی میز کے سامنے کھڑے ہو کر احتجاج کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے، یہ پاکستان کے لیے کوئی پیغام تھا یا اتفاقی واقعہ، لیکن جو حرکت شیو سینا نے کی ہے، وہ کوئی نئی اور حیران کن نہیں ہے۔

شیو سینا 1966ء میں بال ٹھاکرے نامی مقامی ایڈیٹر نے قائم کی۔ قومیت، مذہب اور زبان، ہر نام پر ہندوستان کو تقسیم کرنے کے لیے کام کرنے والی اس تنظیم کے غنڈے کبھی جنوبی ہند کے لوگوں سے خائف رہے، کبھی بہاریوں کو دیکھتے ہی مارتے پیٹتے، کبھی اُن کا غصہ مسلمانوں پر اترتا ہے تو کبھی کمیونسٹ رگڑے میں آ جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے ساتھ ان کی بہت پرانی اور پائیدار دشمنی ہے۔

پاک و ہند کرکٹ پہلی بار 1991 میں شیو سینا کے ہاتھوں متاثر ہوئی۔ پاکستان کو ہندوستان میں ایک روزہ سیریز کھیلنی تھی اور اس سے محض دو دن قبل بمبئی کے وانکھیڑے اسٹیڈیم نے شیو سینکوں کا حملہ سہا۔ پچ خراب کردی گئی اور دورہ منسوخ ہوگیا۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو اپنی حفاظت کے اتنے خدشات لاحق ہوئے کہ 1993 اور 1994 میں بھی طے شدہ دورے نہیں کیے یہاں تک کہ 1999 آگیا۔ ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے خود یقین دہانی کروائی لیکن پاکستان کی آمد سے قبل ہی ایک واقعہ ہوگیا۔ شیو سینک دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم میں گھس گئے، جہاں پاکستان اور ہندوستان کا پہلا ٹیسٹ کھیلا جانا تھا۔ اس مرتبہ انہوں نے پچ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس کےعلاوہ انہوں نے اپنے گڑھ ممبئی میں بھی مظاہرے کیے بلکہ حد سے گزر گئے۔ چرچ گیٹ پر واقع ہندوستانی کرکٹ بورڈ کے صدر دفتر میں گھس گئے اور توڑ پھوڑ بھی کی جس میں ورلڈ کپ 1983 میں جیتی گئی ٹرافی کو بھی نقصان پہنچا۔

ہندوستان کی حکومت ہر قیمت پر اس سیریز کا انعقاد چاہتی تھی، اس لیے پہلا ٹیسٹ دہلی سے چنئی منتقل کر دیا گیا اور دہلی نے پھر دوسرے ٹیسٹ کی میزبانی کی۔ اس سیریز میں چنئی میں پاکستان کی کامیابی پر جس طرح ہندوستانی تماشائیوں نے اٹھ کر داد دی، وہ شیو سینا کے لیے بہترین جواب تھا۔ یہ سیریز ایک سنگ میل ثابت ہوئی اور چند ہی سالوں میں پاک و ہند کرکٹ تعلقات مکمل طور پر بحال ہو گئے۔

2004 سے 2007 تک دونوں ملکوں نے چار سالوں میں چار سیریز کھیلیں، جن میں سے دو پاکستان میں بھی کھیلی گئیں۔ ہر سیریز شاہکار و یادگار تھی اور شیو سینا کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے کافی تھی یہاں تک کہ انتہا پسندوں کے دل کی مرادیں بر آئیں اور 2008 میں ممبئی دہشت گرد حملوں کا نشانہ بن گیا۔

اُس کے بعد سے آج تک نہ پاکستان نے کبھی ہندوستان کا دورہ کیا ہے اور نہ ہی ہندوستانی ٹیم نے پاکستان آنے کی زحمت کی، بلکہ کسی تیسرے مقام پر بھی وہ پاکستان کے ساتھ سیریز کھیلنے پر راضی نہیں ہو رہا۔ گذشتہ سال امید پیدا ہوئی کہ پاکستان اور ہندوستان اب تعلقات بحال کرلیں گے، جب 'بگ تھری' کے معاملے پر ہندوستان کو پاکستان کی سخت ضروری پڑی۔ پاکستان سے وعدہ کیا گیا کہ ہندوستان آئندہ 8 سالوں میں متعدد بار اس کے ساتھ کھیلے گا اور پہلی سیريز دسمبر 2015ء میں ہوگی جس کی میزبانی پاکستان کرے گا لیکن اب یہ سیريز مکمل طور پر سیاست کی نذر ہوچکی ہے اور شیو سینا کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔

اب تازہ ترین خبروں کے مطابق شیو سینا کی دھمکیاں اس حد تک کارگر رہی ہیں کہ آئی سی سی نے علیم ڈار سے ہندوستان میں امپائرنگ کی ذمہ داری واپس لے لی ہے تاکہ کہیں وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر اپنی کارکردگی خراب نہ کر بیٹھیں۔

تو پھر اگر ان حالات میں پاک و ہند کرکٹ سیریز ہو بھی گئی، تو کیا کھلاڑی بغیر دباؤ محسوس کیے کھیل سکیں گے؟ اور کیا شیو سینا ہمیشہ اتنی ہی طاقتور رہے گی کہ اپنی مرضی سے کرکٹ سیریز منسوخ کرواتی رہے؟ اب بھی ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے۔ ہندوستان سرکاری سطح پر شیو سینا کو لگام دے ورنہ جس طرح ایک دہشتگرد حملے نے پاکستان پر عالمی کرکٹ کے دروازے بند کروا دیے، اسی طرح ان 'سینکوں' کی وجہ سے ہندوستان بھی عالمی کرکٹ سے محروم ہو سکتا ہے۔

فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔