پنجاب:مختلف جیلوں میں 9 مجرموں کو پھانسی
لاہور: پنجاب کے 5 مختلف علاقوں، لاہور، فیصل آباد، اٹک، سرگودھا اور بہاولپور کی جیلوں میں قید قتل کے 9 مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد کروادیا گیا ہے جبکہ بہاولپور میں ایک مجرم کی سزائے موت کو آخری لمحات میں روک دیا گیا۔
جیل ذرائع کے مطابق لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں علی الصبح قتل کے دو مجرموں خلیل اور ندیم کی سزائے موت پر عملدارآمد کروادیا گیا ہے۔
مجرم خلیل نے نواکوٹ کے علاقے میں پرویز نامی شخص کو قتل کیا تھا، جس پر اسے 2003 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ مجرم ندیم نے لاہور کے علاقے شادباغ میں ایک شخص کو گولیاں مار کر قتل کیا تھا اور اسے اعلی عدلیہ کی جانب سے 1999 میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔
اٹک کی ڈسٹرکٹ جیل میں قتل کے تین مجرموں امجد، علیق شاہ اور محمد بشیر کو پھانسی دے دی گئی۔
مجرم امجد نے سال 2002 میں اپنے ساس اور سسر کو قتل کیا تھا جبکہ علیق شاہ نے سال 2001 میں دو افراد کی جان لی تھی اور مجرم محمد بشیر نے 1999 میں اپنے دوست کو قتل کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 9 ماہ میں 226 افراد کو پھانسی
بہاولپور کی سینٹرل جیل میں مصطفیٰ بشیر نامی قتل کے مجرم کو چھ افراد کی جان لینے پر پھانسی دے دی گئی جبکہ بہاولپور ہی کی سینٹرل جیل میں فریقین میں صلح ہونے کے بعد ایک مجرم شاہد کی پھانسی کو ملتوی کردیا گیا۔
ادھر ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا میں محمد فاروق کو قتل کرنے کے جرم میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ مجرم نے 2003 میں اپنے ایک دوست کو قتل کیا تھا۔
فیصل آباد کی سینٹرل جیل میں قید قتل کے دو مجرموں محمد اکرم اور محمد سعید کی سزائے موت پر عمل درآمد کروادیا گیا ہے۔
مجرم اکرم نے 2000 میں ایک شخص کو قتل کیا تھا جبکہ مجرم محمد سعید نے 2003 میں ایک شخص کی جان لی تھی.
پھانسی سے قبل مجرموں کی ان کے اہلہ خانہ سے آخری ملاقات کروا دی گئی تھی۔
متعلقہ جیل حکام نے مجرموں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کروانے کے بعد ضروری کارروائی کرتے ہوئے لاشوں کو ورثا کے حوالے کردیا۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت (13-2008) نے سزائے موت پر غیراعلانیہ پابندی عائد کررکھی تھی تاہم سانحہ پشاور کے بعد اس پر ایک مرتبہ پھر عمل درآمد شروع ہوا۔
پہلی پھانسی 19 دسمبر 2014 کو فیصل آباد کی ڈسٹرکٹ جیل میں 2 مجرموں عقیل احمد عرف ڈاکٹر عثمان اور ارشد مہربان کو دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عید کے بعد سزائے موت پرعملدرآمد دوبارہ شروع
دونوں مجرموں پر سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کے الزام تھا۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کی جانب سے سزائے موت کی بحالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد سےملک کی مختلف جیلوں میں اب تک ڈھائی سو کے قریب مجرموں کو پھانسی دی جاچکی ہے۔
دسمبر 2014 میں حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں اعداد و شمار جمع کروائے گئے تھے جس کے مطابق پاکستان میں سزائے موت کے7 ہزار 135 قیدی موجود ہیں، جن میں سے پنجاب کے 6 ہزار 424، سندھ کے 355، خیبر پختونخوا کے 183، بلوچستان کے 79 اور گلگت بلتستان کے 15 سزائے موت کے قیدی شامل ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 8 ہزار سے زائد سزائے موت کے قیدی موجود ہیں۔
خیال رہے کہ دسمبر سے اگست کے دوران ماہ رمضان میں سزائے موت پر عملدر آمد نہیں کیا گیا تھا، البتہ ماہ رمضان کے بعد سے دوبارہ سزائے موت پر پابندی ختم کر دی گئی تھی۔
سزائے موت پر پابندی ختم ہونے کے بعد دسمبر سے اپریل کے درمیان 100 افراد کو پھانسی دی گئی جبکہ اب یہ تعداد 200 سے بڑھ چکی ہے.