پاکستانی لائن میں کیوں نہیں لگ سکتے؟
اسلام آباد ایئرپورٹ کے امیگریشن کاؤنٹر پر میں نے ایک لحظے کے لیے اپنا سر دوسری جانب گھمایا ہی تھا کہ ایک خاتون نے فوراً آگے بڑھ کر میری جگہ لے لی۔ میں بڑبڑایا، "پاکستان میں خوش آمدید۔"
نظم و ضبط اور ترتیب کے لیے ان کی بے رخی کافی حیران کن تھی۔ کچھ ہی گھنٹے پہلے وہ ٹورنٹو کے پیئرسن ایئرپورٹ کی سکیورٹی ڈیسک پر تحمل سے قطار میں کھڑی ہوئی تھیں۔
انہوں نے گورے سکیورٹی اسٹاف کے ساتھ مسکراہٹوں اور علیک سلیک کا تبادلہ کیا، ٹم ہورٹن کی کافی پی، اور ڈونٹس کھاتے ہوئے وہ مسلسل نیپکن سے اپنا چہرہ صاف کر رہی تھیں تاکہ ڈونٹس کے ذرات ان کے منہ پر لگے نہ رہ جائیں۔
مگر وہ ٹورنٹو تھا اور یہ پنڈی۔ یہاں آ کر خوش اخلاقی کے سارے جھوٹے پردے اتر جاتے ہیں۔
46 سال کی عمر میں مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ایک عورت کو مجمع میں اس کی شہری ذمہ داریوں کا احساس دلانا خطرناک ہو سکتا ہے، خاص طور پر تب جب وہ جان بوجھ کر قطار میں آگے آ کھڑی ہوئی ہوں۔ مگر میرے پیچھے کھڑا ہوا برطانوی پاکستانی نوجوان معاف کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔
وہ چلایا، "یہ کیا بے ہودگی ہے۔"
اس خاتون نے نوجوان کا احتجاج نظرانداز کر دیا۔ ان کی نوجوان بیٹی جو اچانک کہیں سے آگئی تھی، مڑی اور ہمیں ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ہماری ہی غلطی ہو۔ درمیانی عمر کا شادی شدہ شخص ہونے کے ناطے میں معافی مانگنے والا تھا، مگر میرے پیچھے موجود برطانوی نوجوان نہیں۔ اس نے مجھے معافی مانگنے اور ماں بیٹی کی اس حرکت کو جواز دینے سے روک دیا۔
کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون افسر سب دیکھ رہی تھی، مگر پھر بھی اس نے پہلے ماں اور بیٹی کا کام کرنا چاہا، جنہوں نے فوراً افسر کو اپنے سبز پاسپورٹس تھما دیے۔ وہ نوجوان برطانوی لڑکا اس غلطی کو معاف نہیں کرنے والا تھا۔
وہ امیگریشن افسر پر چلایا، "یہ کاؤنٹر بیرونی پاسپورٹس پر سفر کرنے والوں کے لیے ہے۔ اس پر ان لوگوں کے سبز پاسپورٹس نہیں لیے جا سکتے"۔ صرف تب ہی اس افسر نے ہچکچاتے ہوئے بحالتِ مجبوری ان دونوں خواتین کو دوسرے کاؤنٹر پر جانے کے لیے کہا۔
میں فاتحانہ انداز میں آگے بڑھا۔ بریڈفورڈ میں پیدا ہونے اور میرپور میں بڑے ہونے والے اس نوجوان کی وجہ سے اعصاب کی جنگ اور پاکستان میں قطار کا تقدس قائم رکھنے میں مجھے کامیابی ملی تھی۔
پاکستانی چاہے کسی بھی پسمنظر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی سیاسی جماعت کے حامی ہوں، ایک چیز میں متحد ہیں: قطار سے نفرت۔ ایئرپورٹس، بینس، بس اسٹاپ، ہسپتال، نادرا کے دفاتر، جس جگہ بھی قطار بنانے کا کہا جائے وہاں پاکستانی قطار توڑ کر آگے نکلنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔
مگر یہ بنیادی مسئلہ طاقت کے بلند ترین ایوانوں میں بھی نظر آتا ہے جہاں ممبرانِ پارلیمنٹ انتخابات کے چند ماہ بعد ہی بے چین ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اپوزیشن میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنا بہت ہی مشکل لگتا ہے۔
ایسا کیسے ممکن ہے کہ پاکستانی بچے قطار بنانا سیکھے بغیر پرائمری اسکول پاس کر لیں؟ یہ کوئی یونیورسٹی میں سیکھی جانے والی چیز نہیں ہے۔ درحقیقت اگر آپ نے کے جی میں قطار بنانے اور اپنی باری کا انتظار کرنے کا فن نہیں سیکھا ہے، تو آپ نے ایک ہنر سیکھنے کا اچھا موقع گنوا دیا ہے۔
ٹورنٹو کے نواحی علاقے مسی ساگا میں میرے بچے اسکول میں تہذیب کے بنیادی سبق سیکھتے ہیں۔ ان کے اساتذہ دو، تین اور چار قومی نظریوں کے تحت بچوں کو یہ نہیں سکھاتے کہ کینیڈین لوگ امریکیوں سے کس طرح مختلف ہیں۔ بلکہ چار سال کے بچوں کو پورے اسکول کا چکر لگوا کر قطار میں چلنا سکھایا جاتا ہے۔
جب وہ کسی باغ یا لائبریری جاتے ہیں، تو انہیں خاموش رہنا، مشاہدہ کرنا اور صبر کرنا سکھایا جاتا ہے جب وہ اپنی پسندیدہ کتاب پڑھنے کی باری کا انتظار کریں یا کسی جانور کو دیکھنے کا۔ شمالی امریکا اور یورپ میں جب تک بچے کالج مکمل کرتے ہیں، تب تک انہیں قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا آ چکا ہوتا ہے۔
اور تب ہی ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ دنیا میں چاہے ٹریفک جام کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، قطاریں لمبی ہوتی ہیں مگر ٹریفک بے ہنگم نہیں ہوتی۔
یہ چیز سادہ لگتی ہے مگر اسے کامیاب بنانے میں ٹکٹ کاؤنٹرز پر بیٹھنے والوں کی اور پارلیمنٹ میں موجود سیاستدانوں کی کوشش درکار ہوگی، کہ کس طرح تہذیب کے ساتھ قطار بنائی جائے اور اپنی باری کا انتظار کیا جائے۔
مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔