نقطہ نظر

اٹلی کا باجیو اور پاکستان کا رضا

کچھ لوگوں کو انعام مل جاتا ہے اور کچھ کو نہیں ملتا مگر کھیل سے عشق اور عقیدت جاری رہتی ہے۔ کھیل جاری رہتا ہے اور رہے گا۔

مجھے صحیح یاد نہیں، شاید آدھی رات تھی اور مجھے صبح سویرے اسکول جانا تھا۔ مگر یہ تاریخی موقع میں ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ ایک تو یہ کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب اٹلی اور برازیل دونوں فٹبال کے تین تین عالمی کپ جیت چکے تھے اور اب دونوں 1994 کے عالمی کپ کے فائنل میں مدِ مقابل تھے۔ دوسری بات یہ کہ یہ فائنل اس وقت تک کا وہ واحد فائنل تھا جو کہ پینلٹی شوٹ آؤٹ تک پہنچا تھا۔ تیسری بات یہ کہ اس عالمی کپ کے فائنل میں ایک طرف تو میری پسندیدہ ٹیم برازیل تھی تو دوسری جانب اس وقت کا سب سے مشہور اور معروف بازیگر روبرٹو باجیو تھا۔

90 منٹ کھیلنے کے بعد بھی دونوں ٹیمیں گول کرنے میں ناکام رہی تھیں، اور 30 منٹ کے اضافی وقت میں بھی دونوں ٹیموں نے کوئی گول نہیں کیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب فیفا قواعد کے مطابق اضافی وقت میں جو بھی ٹیم پہلے گول کر پائی گی، جیت اسی کے نام ثبت ہوگی، اور اسے 'گولڈن گول' کہا جاتا تھا۔ مگر اضافی وقت میں بھی کوئی بھی ٹیم گول نہیں کر پائی تھی جس کی وجہ سے اب کھیل کا فیصلہ پینلٹی شوٹ آؤٹ میں ہونا تھا۔

پینلٹی شوٹ آؤٹ میں برازیل 4 میں سے 3 گول کر چکا تھا مگر اٹلی 4 میں سے صرف 2 گول کرنے میں کامیاب ہوا تھا اور اب گیند کے پیچھے روبرٹو باجیو کھڑے تھے۔ اس وقت تک کے سب سے بڑے اسٹیڈیم میں موجود 95 ہزار تماشائیوں کی نظریں گیند کی جانب تھیں۔ گول کی رکھوالی کرنے والے سخت جان اور شاطر گول کیپر کلاڈیو ٹفیرل ہاتھوں میں دستانے پہنے ہوئے پیروں پر اچھل کر اپنی تیاری کا ثبوت دے رہے تھے۔ اسٹیڈیم میں ایک عجیب خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

باجیو گیند کو پینلٹی کے نشان پر رکھتے ہوئے پیچھے کی جانب آ جاتے ہیں اور دو مرتبہ ریفری کی جانب دیکھتے ہیں تا کہ ریفری انہیں وار کرنے کی اجازت دیں۔ ریفری پہلے تو ٹفیرل کی طرف دیکھتے ہیں اور پھر ان کو تیار دیکھ کر سیٹی بجا کر باجیو کو اشارہ کرتے ہیں کہ وہ وار کرے۔ ٹفیرل اپنے مخصوص انداز میں اپنے قدموں پر ہلکے ہلکے اچھل اچھل کر گیند کا انتظار کر رہے ہیں۔ جیسے جیسے باجیو گیند کی جانب بڑھتے ہیں، اسی طرح ٹفیرل کے قدموں کے اچھلنے کی رفتار میں بھی تیزی آ جاتی ہے۔

باجیو گیند کی طرف آگے بڑھتے ہیں۔ جوں ہی باجیو دوڑ کر گیند کے قریب پہنچتے ہیں، کچھ لمحے کے لیے ٹفیرل ساکت کھڑے ہوتے ہیں اور پھر ایک قدم آگے کی جانب رکھتے ہوئے گیند کی طرف دیکھتے ہیں۔ تماشائی اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور پھر باجیو وہ کر جاتے ہیں جسے تاریخ کبھی بھلا نہیں پاتی، اور یہی واقعہ برسوں تک میرے اور آغا رضا کے نزدیک ایک اہم موضوع بن کر رہ جاتا ہے۔

آغا رضا کہتے تھے کہ روبرٹو باجیو بہت ہی کم عرصے میں اپنی زبردست کارگردگی کے باعث فٹبال شائقین کے لیے ایک عظیم کھلاڑی بن گئے تھے۔ جب 10 نمبر شرٹ پہن کر باجیو گیند کے پیچھے بھاگتے تھے تو گردن کے پیچھے ان کا باریک سا پونی ٹیل بھی ہوا میں لہراتا جسے دیکھ کر شائقین کے دلوں کی دھڑکن بھی تیز ہو جاتی، اسی لیے انہیں The Divine Ponytail کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔

رابرٹو باجیو اور ان کی پونی ٹیل. — fansshare.com

وہ گیند پر عمدہ کنٹرول رکھتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی برق رفتاری رقیب ٹیم کے لیے ایک معمہ تھی۔ باجیو گیند کے ساتھ اپنے رقیب کو چکمہ دینے میں جو محرکات دکھاتے وہ شائقین کے لیے سحر انگیز اور دیدنی ہوا کرتے۔

روبرٹو باجیو، جنہیں شائقین 'روبی' کے نام سے بھی پکارتے تھے، نے سب سے زیادہ کامیاب دور Juventus کے کلب میں گزارا، جہاں انہوں نے 5 سال کے عرصے میں مجموعی طور پر 200 میچ کھیلے، جن میں 115 گول کیے۔ جب سنہ 1990 میں روبی 80 لاکھ پاؤنڈ میں Juventus منتقل ہوئے تو وہ اس وقت دنیا کے مہنگے ترین فٹبالر قرار پائے۔ 1993 میں نہ صرف انہیں "فیفا فٹبالر آف دی ایئر" کے اعزاز سے نوازا گیا بلکہ وہ فیفا کا سالانہ ایوارڈ Ballon d'Or بھی جیتنے میں کامیاب رہے۔ ایک موقع پر فرانس کے لیجنڈ فٹبالر زین الدین زیدان باجیو کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں "باجیو بینچ پر؟ یہ وہ چیز ہے جسے میں کبھی بھی سمجھ نہیں پاؤں گا۔"

مگر آغا رضا ہمیشہ کہتے تھے کہ ایک عظیم کھلاڑی کبھی بھی ایوارڈ، اعزاز اور لوگوں کی تعریف سننے کے لیے نہیں کھیلتا۔ ایک عظیم کھلاڑی ہمیشہ کھیل سے عشق اور بازی سے عقیدت کی خاطر کھیلتا ہے۔ شاید اسی لیے اپنے کریئر میں بہت نشیب و فراز سے دوچار ہونے کے باوجود باجیو نے کھیلنا کبھی ترک نہیں کیا۔ وہ کئی مرتبہ کھیل کے دوران بہت بری طرح زخمی ہوئے، یہاں تک کہ ایک دفعہ تو ڈاکٹرز نے انہیں کہہ دیا تھا کہ شاید وہ زندگی بھر فٹبال نہ کھیل پائیں۔ بالآخر ڈپریشن سے بچنے کے لیے باجیو نے بدھ مذہب اختیار کر لیا۔

اس کے ساتھ ساتھ کئی دفعہ انہیں ایسے مینیجر ملے جو ان کو جان بوجھ کر بینچ پر بٹھاتے رہے۔ آغا رضا کہتے تھے کہ ایک کھلاڑی کے لیے اس سے بڑی بے عزتی نہیں کہ بالکل تیار اور فارم میں ہونے کے باوجود اسے بینچ پر بٹھا کر کھیلنے نہ دیا جائے۔ مگر یہ سب ایک طرف اور جو کچھ 1994 کے عالمی کپ میں باجیو نے کیا وہ دوسری طرف۔

جی ہاں۔ باجیو کو پینلٹی شوٹ آؤٹ کا ماہر سمجھا جاتا تھا مگر جب وہ 1994 عالمی کپ کے فائنل میں برازیل کے خلاف بھاگ کر پینلٹی کک لیتے ہیں تو گیند کو پول سے کوسوں دور آسمان کی طرف اچھال دیتے ہیں، جس کی وجہ سے عالمی کپ برازیل کے نام ہو جاتا ہے۔ اگر وہ گیند کو گول کی جانب وار کرتے اور برازیل کے گول کیپر ٹفیرل روک لیتے تو الگ بات ہوتی۔ مگر باجیو جیسے عظیم فٹبالر کا اس طرح گیند کو ہوا میں اچھال دینا میرے اور آغا رضا کے ساتھ ساتھ شائقینِ فٹبال کے لیے سکتے سے کم نہیں تھا۔

بہرحال میرے اور آغا رضا کے نزدیک باجیو کی اس حرکت کی وجوہات مختلف تھیں۔ میرے مطابق باجیو کا پاؤں پورے ٹورنامنٹ میں زخمی تھا اور وہ مسلسل درد میں کمی کرنے والی دواؤں کے سہارے سے کھیلتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ فائنل میں کافی تھکے ہوئے بھی تھے کیونکہ وہ مسلسل 120 منٹ تک میدان میں بھاگ دوڑ چکے تھے، اس لیے کپتان باریسی اور کوچ کارلوس البرٹو پریرہ کو چاہیے تھا کہ وہ باجیو کو پینلٹی کک نہ لینے دیتے۔

مگر آغا رضا کیونکہ خود ایک پروفیشنل فٹبالر تھے، اس بات پر زور دے رہے تھے کہ پینلٹی کک کبھی بھی اتنی آسان نہیں ہوتی جتنی تماشائیوں کو نظر آتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ جب گول کیپر گول کی حفاظت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو 7.32 میٹر کا گول پینلٹی کک لینے والے کھلاڑی کو بہت چھوٹا نظر آنے لگتا ہے۔ آغا رضا کہتے تھے کہ اس واقعے نے یہ ثابت کر دیا کہ پینلٹی کک کبھی بھی آسان نہیں ہوتی، اس لیے اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

مگر وجوہات جو بھی ہوں، اصل بات یہ ہے کہ اس ایک کک نے باجیو کو بہت سارے شائقینِ فٹبال، بالخصوص اٹلی کے طرفداروں کے لیے ہیرو سے زیرو بنا ڈالا۔ اس واقعے کے بعد لوگ باجیو کو ایک معمولی، ناکام اور ناکارہ فٹبالر کے حیثیت سے یاد کرنے لگے۔ حالانکہ اسی میچ میں اٹلی کے کپتان باریسی بھی پینلٹی شوٹ آؤٹ میں گول نہیں کر پائے تھے، مگر سب عالمی کپ کے فائنل میں اٹلی کے ہارنے کا ذمہ دار باجیو کو کہنے لگے۔ اس واقعہ نے باجیو پر بہت گہرا اثر ڈالا۔

اب چار سال گزر چکے تھے۔ اور یہ عالمی کپ 1998 کے پہلے راؤنڈ کا میچ تھا۔ چلی کو اٹلی پر 2-1 سے سبقت حاصل تھی۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا اور بے حد کوششوں کے باوجود اٹلی نتیجے کو مساوی کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اسی اثناء میں گیند باجیو کے پاس آجاتی ہے اور وہ پاس دینے کے غرض سے جب گیند کو آگے کی طرف اچھال دیتے ہیں تو گیند چلی کے کھلاڑی کے ہاتھ سے ٹکرا جاتی ہے جس پر باجیو پینلٹی کے لیے اپیل کرتے ہیں۔

کیونکہ چلی کا کھلاڑی "ڈی حصے" میں موجود ہوتا ہے اسی لیے ریفری پینلٹی کے لیے سیٹی بجاتے ہیں۔ یہ سنتے ہی باجیو ہاتھ زانو پر رکھ کر زمین کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ سب کو پتا ہے کہ 4 سال پہلے پینلٹی کک لینے پر باجیو پر کیا گزری ہے اسی لیے اٹلی کے کئی کھلاڑی فوراً باجیو کے پاس آجاتے ہیں اور اسے دلاسا دینے لگتے ہیں۔ اب لوگ یہی توقع کر رہے ہیں کہ باجیو پینلٹی کک کی ذمہ داری کسی اور کھلاڑی کو سونپ دیں گے، مگر لوگوں کی توقعات کے بر خلاف باجیو کک لینے کے لیے خود گیند کے پیچھے جرأت کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے 1994 عالمی کپ کا واقعہ ایک بار پھر رونما ہونے والا ہو۔

باجیو گیند کو پینلٹی کی نشان پر رکھتے ہوے بالکل چار سال پہلے کی طرح پیچھے آ جاتے ہیں اور ریفری کی جانب دیکھتے ہیں تاکہ ریفری انہیں وار کرنے کی اجازت دیں۔ کک لینے سے پہلے باجیو کئی بار زور سے ہوا میں اپنی سانس پھونک دیتے ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کافی گھبرائے ہوئے ہیں۔ باجیو گیند کی طرف بھاگتے ہیں اور گول کے سیدھے ہاتھ کی طرف گیند کو مارتے ہیں۔ چلی کا گول کیپر بھی گیند کے رخ کا صحیح اندازہ لگاتے ہوئے سیدھے ہاتھ کی طرف ہاتھ بڑھا کر کودتا ہے۔ گول کیپر گیند کو ہاتھ لگانے میں تو کامیاب ہو جاتا ہے مگر اس کے دستانے گیند کو صرف چھو پاتے ہیں اور اس طرح گول ہو جاتا ہے۔

یوں باجیو 4 سال پرانے خوف کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس گول کے بعد باجیو ایک انٹرویو میں کہتے ہیں "اس گول کے ذریعے میں نے 1994 کے جن کو ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا"۔

آغا رضا کے بقول ایک عظیم کھلاڑی کبھی بھی جیت کی وجہ سے عظیم نہیں ہوتا، بلکہ وہ کھیل سے عشق اور احترام کی وجہ سے عظیم ہوتا ہے۔ جیت تو بس کھیل سے عشق کے عوض ایک انعام ہے جو کہ کبھی تو کھلاڑی کو مل جاتا ہے تو کبھی نہیں ملتا۔ مگر انعام کا نہ ملنا کبھی بھی اس کھلاڑی کہ لیے کھیل کی عظمت کو کم نہیں کرتا۔ چاہے انعام ملے یا نا ملے، کھلاڑی کھیل سے عشق کرتا رہے گا اور کھیل جاری رکھے گا۔

آج آغا رضا اور پھر روبرٹو باجیو کی یاد اس لیے آئی کیونکہ ایک پرانے البم میں میری نظر آغا رضا کی ایک فوٹو پر پڑی جس میں وہ ایک بین الاقوامی میچ میں پاکستان واپڈا ٹیم کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔

سیدھے ہاتھ سے دوسرے کھلاڑی آغا رضا ہیں جو 2005 میں نیپال میں پاکستان واپڈا کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ فوٹو بشکریہ سید حسین

آغا رضا نہ صرف ایک دہائی تک قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان واپڈا فٹبال ٹیم کا اہم حصہ رہ چکے تھے، بلکہ وہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی قومی ٹیم میں بھی ملک کی نمائندگی کر چکے تھے۔ وہ پاکستان واپڈا ٹیم میں کلیدی کردار رکھتے تھے۔ ان کے دور میں پاکستان واپڈا کی ٹیم نے سنہ 2005، 2008 اور 2009 میں پاکستان پریمیئر لیگ اپنے نام کی۔ اسی طرح آغا رضا اور ان کی ٹیم پاکستان واپڈا سنہ 2005، 2008، اور 2009 میں ایشین فٹبال کنفیڈریشن کپ میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہے۔

اوپر سیدھے ہاتھ سے دوسرے کھلاڑی آغا رضا ہیں جو 2009 میں نیپال میں پاکستان واپڈا کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ فوٹو بشکریہ سید حسین

مگر آغا رضا بھی پاکستان کے ان بے شمار کھلاڑیوں میں سے ایک تھے جو پاکستان کی قومی فٹبال ایسوسی ایشن سے نالاں تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہاں کھیل (کرکٹ کے علاوہ) جیسے ہنر کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں ہوتی اور ورزش کار کو حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ کھلاڑیوں کے لیے زندگی اور دشوار ہو جاتی ہے جب اسپورٹس ایسوسی ایشن میں سفارش، پیسے اور سیاست کا راج ہوتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کے بے شمار کھلاڑیوں کی طرح آغا رضا بھی زندگی بھر معاشی دست تنگی میں مبتلا رہے مگر انہوں نے آخرِعمر تک کھیل کو ترجیح دی۔

حالات جیسے بھی تھے، وہ فٹبال سے عشق کرتے تھے اور اس کھیل کے لیے احترام کے قائل تھے۔ مگر یہ بات بتاتے ہوئے مجھے بے حد تکلیف ہوتی ہے کہ گھریلو مسائل اور معاشی دست تنگی کی وجہ سے آغا رضا نے سنہ 2010 میں خود کشی کر لی۔ اس واقعے سے نہ صرف ان کے گھر والے اور رشتہ دار بلکہ ان کے سارے دوست اور جاننے والے بری طرح متاثر ہوئے۔ ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ آج بھی علمدار روڈ کا یزدان خان فٹبال گراؤنڈ ان کے بغیر سونا سونا لگتا ہے۔

مگر بات وہی رہ جاتی ہے کہ کچھ لوگوں کو انعام مل جاتا ہے اور کچھ لوگوں کو نہیں ملتا۔ مگر کھیل سے عشق اور عقیدت جاری رہتی ہے، کھیل جاری رہتا ہے اور کھیل جاری رہے گا۔

روحت شاد باد آغا رضا

علی زیدی

علی زیدی تھرڈ ڈویژنر ہیں اور بد قسمتی سے اکاؤنٹنگ کے طالبعلم ہیں۔ افسانہ، غزل اور نظم بھی لکھتے رہتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: smazify@

ان کا ای میل ایڈریس smazify@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔