بداعتمادی اور عداوت: ایک پاکستانی صحافی کا دورہ افغانستان
ایک ٹی وی اینکر کے طور پر میں یہ بات تسلیم کرتی ہوں کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا پاک افغان تعلقات کو نظرانداز کیے رکھتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اس سے ریٹنگز نہیں آتیں۔
لہٰذا پاکستان کے بڑے ٹی وی چینلز کے کابل اور افغانستان کے دیگر شہروں میں یا تو نمائندے نہیں ہیں، یا بہت تھوڑی تعداد میں ہیں۔ یہاں تک کہ پڑوسی ملک کے واقعات کو تب تک 'خبر' بھی نہیں سمجھا جاتا جب تک دونوں ممالک سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ایک دوسرے پر الزامات کی بارش نہ کر دیں۔
میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہ خلا خود کابل جا کر پُر کروں گی۔ میں افغان لوگوں کے نکتہ نظر کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ میں سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں سے بھی مل کر دو ممالک کے بیچ موجود اعتماد کی کمی کی وجوہات سمجھنا چاہتی تھی۔
لینڈنگ
پہلا تاثر: کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ امریکی فضائی اڈے جیسا لگ رہا تھا۔ لینڈ کرتے ہی ایئرپورٹ عملے کا ایک رکن میرے قریب آیا اور مجھ سے اردو میں گفتگو شروع کرنے لگا جس سے مجھے اپنائیت کا احساس ہوا۔ لیکن یہ خوشگوار احساس زیادہ دیر قائم نہیں رہا کیونکہ اب میرے سامنے سکیورٹی چیک پوائنٹ تھا۔
میں نے بتایا کہ میں پاکستانی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے جوتے اتارنے ہوں گے۔ میرے سامان کی اچھی طرح تلاشی لی گئی۔ اور اس کے بعد سوالات کی ایک انتہائی طویل فہرست۔ اس کے بعد تمام سکیورٹی چیک پوائنٹس پر یہی کیا گیا۔
اور یہ تو صرف شروعات تھی۔ میں افغانستان میں 8 دن کے لیے رکی۔ وہاں پر میرا وقت زیادہ تر مختصر انٹرویوز، آف ریکارڈ اور آن ریکارڈ ملاقاتوں، اور چند ذرائع، جو ظاہر ہے کہ نامعلوم رہنا چاہتے تھے، سے کچھ تشویشناک معلومات حاصل کرنے میں گزرا۔
انٹرویوز کے لیے میں جب بھی فون کال کرتی تو کچھ اس طرح کی گفتگو ہوتی:
"میں پاکستانی صحافی ہوں
نہیں میں آئی ایس آئی کی ایجنٹ نہیں ہوں
میں افغانستان کام کے سلسلے میں آئی ہوں
میں صحافی ہوں"
ایک مخصوص نفرت
کابل میں رائے عامہ پاکستان کے کافی خلاف ہے، یا درست الفاظ میں کہیں تو آئی ایس آئی کے خلاف ہے۔ زیادہ تر افغان پاکستان سے نفرت نہیں کرتے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ آئی ایس آئی افغان طالبان کی حامی ہے اور جس کے افغانستان کو غیر مستحکم کرنے میں وسیع تر مفادات ہیں۔ مگر جب بھی میں نے ان سے اس کی مزید وضاحت چاہی تو جواب میں صرف آدھی کہانیاں اور سنی سنائی باتیں ملیں جن کے کوئی ثبوت نہیں تھے۔
نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) اور حکومتِ افغانستان ہر سکیورٹی مسئلے کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ دوسری جانب ہندوستانی انٹیلیجنس کے افغان انٹیلیجنس سے قریبی روابط ہیں۔ میں نے جانا کہ کابل میں ہندوستانی سفارتخانے سے قربت آپ کو افغان وزارتِ داخلہ کا اعتماد آسانی سے دلوا سکتی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینیئر سیاستدان (ماضی کے جہادی) نے مجھے بتایا کہ افغانستان کی قومی اتحادی حکومت آئی ایس آئی کے ساتھ 'اچھے تعلقات' کی اہمیت نہیں سمجھتی۔ انہوں نے زور دیا کہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں افغانستان کو اپنی ترجیحات درست کرنی چاہیئں، جو ابھی درست نہیں ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان بھی مذاکرات کو بہتر طریقے سے نہیں برت رہا۔ انہوں نے مشتبہ انداز میں کہا کہ میز کے نیچے جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق این ڈی ایس اور حکومت ان پر اعتماد نہیں کرتی اور وہ کھلے عام پاکستان کا حامی ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔
ان سیاستدان نے مجھے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ اپنی خفیہ ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ "اشرف غنی بہت گھبراتے ہیں" اور دباؤ برداشت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ افغان اور پاکستان انٹیلیجنس کے درمیان یادداشت کے باوجود آئی ایس آئی اور این ڈی ایس کے درمیان اعتماد کی کمی ہے۔ ان کے نزدیک حل افغان حکومت کی پالیسیوں اور فیصلہ سازی کی قوت میں ہے، کیونکہ سیاسی اور سفارتی ترجیحات میں تیز تر تبدیلی خارجہ پالیسی کے لیے نقصاندہ ہے۔
افغان صحافی
میں کچھ افغان صحافیوں سے ملی جو اسلام آباد میں کام کرنا چاہتے تھے مگر سکیورٹی کلیئرنس کا طریقہ کار نہایت مشکل تھا۔ صحافیوں کو دونوں ہی ممالک میں خفیہ کارندہ سمجھا جاتا ہے۔ افغان ٹی وی چینلوں کے اسلام آباد میں کوئی بیوروز نہیں ہیں اور ان کے قیام کی تجاویز گرد آلود فائلوں میں دبی ہوئی ہیں۔
افغان وزارتِ خارجہ کے حکام نے مجھے بتایا کہ انہوں نے تین مرتبہ پاکستان کے وزیرِ اطلاعات پرویز رشید سے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے ساتھ اعتماد سازی اور ایک دوسرے کے بارے میں تاثر بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، اور یہ مشق نجی ٹی وی چینلوں تک بھی بڑھائی جائے گی، مگر انہیں اب تک جواب نہیں ملا ہے۔
کابل کی صحافی برادری سمجھتی ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے چاہیئں۔ ان کے مطابق افغانستان، پاکستان اور ہندوستان میں موجود شرپسند عناصر ایسا ہونے سے روکنے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔