قبروں کے قبرستان
پاکستان میں رہتے ہوئے وہ وقت دور نہیں جب قبرستانوں میں تدفین کے لیے جگہ بھی آسان ماہانہ اقساط پر دستیاب ہوگی اور اخبارات، بہترین سہولیات سے آراستہ اور شہر سے قریب ترین قبرستانوں کی اسکیموں کے اشتہارات سے بھرے ہوئے ہوں گے۔
اگر ہمارے قبرستانوں کا حال دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں صرف زندہ لوگوں کی بھرمار ہی نہیں بلکہ قبرستان بھی مقررہ قبروں کی تعداد سے تجاوز کر چکے ہیں اور سڑکوں کے علاوہ قبرستان بھی ناجائز قبروں کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ بھی یقیناً منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکثریتی قبرستانوں میں تو قبریں بھی وقت کے ہاتھوں اور جگہ کی کمی کی وجہ سے دفنا دی جاتی ہیں۔ تہہ در تہہ قبریں دفنانے کا یہ عمل سالوں سے جاری ہے اور حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ عمل یونہی جاری رہے گا۔
حالات تو اب یہ ہو چکے ہیں کہ بوقتِ ضرورت مطلوبہ قبرستان میں قبر دستیاب نہیں ہوتی اور بڑی تگ و دو کے بعد گورکن کو رشوت لگا کر قبرستان کے کسی کونے میں بذریعہ چائنہ کٹنگ قبروں کے درمیان جگہ بنائی جاتی ہے، یا پہلے سے موجود قبر کو دفناتے ہوئے نئی قبر تعمیر کی جاتی ہے۔
لاہور شہر کے پرانے قبرستانوں میں تدفین کے لیے جگہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اور تدفین کے لیے جانے والے بل کھاتی پگڈنڈیوں اور مختلف کچی و پکی قبروں میں سے ہوتے ہوئے کھودی گئی قبر تک پہنچتے ہیں، جہاں سے واپسی، گورکن کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔
شہر کے مہنگے علاقوں میں تو قبرستانوں کے منتظمین مرحوم کا شناختی کارڈ دیکھ کر دفنانے کی اجازت دیتے ہیں اور اگر مرنے والے کے شناختی کارڈ پر اس کے گاؤں کا پتہ درج ہو تو معذرت کرتے ہوئے مشورہ دیا جاتا ہے کہ مرحوم کو ان کے آبائی قبرستان میں ہی دفنانا چاہیے۔ مرحوم کی اولاد کے شناختی کارڈ پر مذکورہ پتہ درج ہونے کے باوجود کہا جاتا ہے کہ وفات تو آپ کے والد یا والدہ کی ہوئی ہے، اللہ آپ کو لمبی زندگی دے، جب آپ کی وفات ہوگی تو آپ کو قبر کے لیے جگہ مہیا کردی جائے گی۔