پاکستان

این اے 122: پرانا ٹکراؤ، نیا عزم

ضمنی انتخابات کے نتیجے کی پیشگوئی بہت مشکل ہے مگر بیشتر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ بہت سخت مقابلہ ثابت ہونا ہے۔

پرانا ٹکراؤ اور نئے عزائم کے ساتھ، مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار ایاز صادق جو کہ اپنے عہدے کے وقار کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، اپنی پوری طاقت کے ساتھ ابھرتے ہوئے تحریک انصاف کے امیدوار عبدالعلیم خان کے مدمقابل آئیں گے۔

این اے 122 کے رہائشی لاہور کے مختلف رنگوں کا امتزاج ہیں، یہاں درمیانے طبقے کے کاروباری افراد بھی ہیں، بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین خاص طور پر ریلوے ورکرز بھی یہاں کے باسی ہیں۔ یہاں کالجز کی تعداد کم اور درمیانے طبقے کی گنجان آبادیاں بھی موجود ہیں اور ہاں یہاں بڑی برادریاں جیسے آرائیں اور کشمیریوں کی موجودگی ہے جو ماضی کے انتخابات میں اہم کردار ادا کرچکی ہیں۔

یہ وہ علاقہ ہے جہاں مسلم لیگ ن کو فتوحات حاصل کرنے کی عادت ہے۔ پارٹی کے موجودہ امیدوار ایاز صادق نے 2002 میں اس نشست کو جیتا تھا۔اس وقت ایاز صادق کے مدمقابل عمران خان جو ایچی سن کالج میں قومی کھیل ہاکی میں ایاز صادق کے ساتھی تھے، نے انتخابی مقابلے میں ن لیگ کے امیدوار کے مقابلے میں بمشکل آدھے ووٹ ہی حاصل کرسکے۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ 2013 میں نقشہ پلٹ گیا تھا اور ایاز صادق نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے عمران خان کی واضح فتح کو ہتھیا لیا، اگرچہ اس بار بھی اسی طرح کے نتائج کی پیشگوئی کی جارہی ہے، مگر اس بار پی ٹی آئی کی مہم کو وسائل اور جوش و جذبے کی کمی کا سامنا نہیں۔

اس وقت جب دونوں مرکزی امیدوار آمنے سامنے ہیں، یہاں باقی ماندہ حامیوں کے مطابق ایک تیسری قوت بھی موجود ہے۔ پیپلزپارٹی کے بیرسٹر عامر حسن بھی اپنی ہمت کے مطابق مہم چلارہے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنے وسائل لگائے ہیں۔ انہوں نے اپنی مدد کے لیے پی پی پی کے قابل احترام چہروں کو بھی طلب کیا ہے جو کہ اس جماعت کی جانب سے بحالی کی سب سے واضح کوشش ہے جو کافی عرصے بعد سامنے آئی ہے۔

اگر 2013 میں ایک حریف کی آمد جو مسلم لیگ ن کی دھوم دھام سے چلائی جانے والی مہم کے لیے تیار اور مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا تھا، تو اس بار پی ٹی آئی کی مہم اس سے بھی آگے جاچکی ہے۔ ایسا واضح طور پر پر نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ عمران خان کا کیمپ بھی بھرپور سرگرم ہے۔ اسے پاکستان کی سب سے پرشور انتخابی مہم بھی کہا جاسکتا ہے۔

محمد طارق جو جمیل ٹاﺅن کا ایک رہائشی ہے اور اس حلقے کے آخری کونے میں یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے قریب مقیم ہے، نے کبھی ووٹ نہیں ڈالا مگر اب یہ پچیس سالہ نوجوان علیم خان کے حق میں سرگرم ہے۔

اس کے بقول " کسی نے بھی میری برادری کے لیے ایسا کچھ نہیں کیا جو علیم خان نے 2002 میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی کے بعد کیا، ہمارے علاقے میں ہر ترقیاتی اسکیم پر ان کا نام ہے۔ اور ایاز صادق؟ ہم نے انہیں اس وقت تک حلقے میں نہیں دیکھا جب تک ان کی رکنیت کالعدم نہیں قرار دے دی گئی"۔

این اے 122 کے متعدد ووٹرز طارق جیسے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، علیم خان کی بطور ایک سیاستدان تصویر ایسی ہے جو اپنے ووٹرز کے ساتھ ہنستا اور روتا ہے، جو اس خیال پر سبقت لے جاتا ہے کہ وہ ' ہارڈ کور کرپٹ' لینڈ ڈویلپر ہیں جو کہ ضمنی انتخابات کے لیے مسلم لیگ ن کی ان کے خلاف مہم کا بنیادی ستون ہے۔

فرخ جاوید مون گڑھی شاہو میں پی ٹی آئی کے مرکزی انتخابی دفتر کے انچارج ہیں، وہ اصرار کرتے ہیں " علیم خان نے علاقے میں پینے کے صاف پانی اور طبی سہولیات کے لیے اس وقت بہت کچھ کیا جب وہ ایک صوبائی وزیر تھے (چوہدری پرویز الہیٰ کی کابینہ میں)۔ لوگوں کو وہ سب یاد ہے اور ضمنی انتخابات کا نتیجہ انہیں بے گناہ ثابت کردے گا"۔

تاہم یہی واحد عنصر نہیں جو علیم خان کو قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر جنھیں الیکشن ٹربیونل نے 2013 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کے نتیجے میں رکنیت سے ہٹا دیا تھا، کے خلاف فائدہ پہنچاسکتا ہے۔

سمن آباد کے ایک رہائشی جو پی ٹی سی ایل میں ڈویژنل انجنیئر ہیں،نے نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا " جس طرح علیم خان پیسہ خرچ کررہے ہیں اور سخت محنت کررہے ہیں وہ حیرت انگیز ہے، اگر انہیں شکست ہوئی تو مجھے ان کے لیے بہت افسوس ہوگا"۔

اگر آپ اقبال ٹاﺅن سے سمن آباد سے ہوتے ہوئے ندیم شہید روڈ سے اچھرہ کی جانب جائیں جو کہ اس حلقے کا دوسرا کونا ہے، تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ این اے 122 کا معرکہ مسلم لیگ ن کے لیے آسان ثابت نہیں ہوگا۔ یہاں جگہ جگہ پی ٹی آئی کے بڑے بینرز اور پوسٹرز لگے ہیں۔ کچھ جگہوں پر ہی آپ کو ایاز صادق نظر آتے ہیں۔ اچھرہ اور فیروز پور روڈ کا وہ حصہ جو این اے 122 میں آتا ہے، بھی یہی تصویر پیش کرتا ہے۔

اچھرہ کے ایک تاجر جو کہ سمن آباد کے رہائشی اور ایک رجسٹرڈ ووٹر ہیں، نے ڈان کو بتایا " ہم ہمیشہ نواز شریف اور شہباز شریف کو ایسا سمجھتے تھے جیسے وہ ہم میں سے ایک ہیں، مگر یہ ہماری حماقت تھی جس کا احساس ہمیں اس وقت ہوا جب مسلم لیگ ن کی حکومت نے بینکنگ ٹرانزیکشن ٹیکس کا نفاذ کیا، انہیں اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی"۔

اگرچہ اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتیجے کی پیشگوئی بہت مشکل ہے مگر بیشتر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ بہت سخت مقابلہ ثابت ہونا ہے تاہم مسلم لیگ اب بھی پراعتماد ہے۔

دھرم پورہ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے ایک حامی ندیم بٹ اصرار کرتے ہیں " لاہور اب بھی نواز شریف کا شہر ہے، پی ٹی آئی نے 2013 میں گلبرگ کو جیت لیا تھا جو کہ متوقع تھا، جو یہ سوچتے ہیں کہ وہ ایاز صادق کو شکست اور لاہور پر قبضہ کرسکتے ہیں وہ خیالی پلاﺅ پکا رہے ہیں"۔

اچھرہ کے علاقے رسول پارک سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے ایک اور حامی محمد شفیق اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی جانب سے بلاتھکان اور مہنگی مہم سے ان کے امیدوار کو سبقت ملی ہے " اگر دولت سے ووٹ خریدے جاسکتے تو علیم خان جیسے افراد کبھی نہیں ہارتے، خاموش اکثریت مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے"۔