پاکستان

'استعفیٰ دینے والے ارکان اسمبلی کے رکن نہیں'

ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے ارکان اگرمستعفی ہو چکے ہیں تو استعفے اب تک منظور کیوں نہیں ہوئے؟ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی
|

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ارکان کے قومی اسمبلی سے استعفوں سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ارکان قومی اسمبلی نے اگر آرٹیکل 64 کے تحت استعفے دیے ہیں تو پھر وہ رکن نہیں رہے۔

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ظفر علی شاہ کی پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے استعفوں کے حوالے سے درخواست کی سماعت کی۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے ارکان اگرمستعفی ہو چکے ہیں تو استعفے اب تک منظور کیوں نہیں ہوئے اور تنخواہیں کیوں جاری کی گئیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی آرٹیکل 69 کے تحت عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی، تاہم ارکان اسمبلی اگر آرٹیکل 64 کے تحت مستعفی ہوں تو وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں رہتے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ اگر کوئی عمل اسپیکر کے سامنے زیر التواء ہو تو کیا سپریم کورٹ فیصلہ کر سکتی ہے۔

ظفر علی شاہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ مداخلت کر سکتی ہے، محمد نواز شریف بنام ریاست کے ایک مقدمے میں استعفوں کا ذکر آیا تھا، اس وقت استعفے اسپیکر کی بجائے ایوان صدر میں جمع کرائے گئے تھے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ استعفے دینے والے ارکان پارلیمنٹ تھے یا نہیں اس کا تعین کون کرے گا، سپریم کورٹ اس وقت تک عمل دخل نہیں کر سکتی جب تک اسپیکر اس کا تعین نہ کرلے۔

درخواست گزار ظفر علی شاہ کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے استعفوں سے متعلق چیئرمین سینیٹ نے ایک رولنگ دی مگر پی ٹی آئی سے متعلق نہیں، اس رولنگ کی کاپی رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھی بھجوائی گئی ہے۔

سماعت کے دوران اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ سینٹ میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو بغیر کسی جواز کے فریق بنایا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ فریق نہیں رہنا چاہتے تو ایک درخواست دے دیں، پیپلز پارٹی کو شاید اس لیے فریق بنایا جارہا ہوں تاکہ عدالت میں رونق ہو۔

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی اجلاس میں شریک ہوچکے، اب استعفوں کا معاملہ نہیں رہا۔

متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کسی کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور تمام فریقین کو دوبارہ نوٹسز جاری کرتے ہوئے چار ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس 22 اگست کو تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے اراکین، 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران مستعفی ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں : تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی سے مستعفی

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف اسلام آباد میں 126 روز کا دھرنا بھی دیا، تاہم پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

حکومت اور تحریک انصاف میں رواں برس 2 اپریل کو ایک معاہدے کے تحت جوڈیشل کمیشن بنایا گیا جس نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تحقیقات کرکے رپورٹ جاری کی، تاہم دھاندلی کے بجائے بد نظمی کی نشاندہی کی گئی تھی.

5 اپریل کو تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپس آنے کا اعلان کیا جبکہ 6 اپریل کو پی ٹی آئی کے اراکین عمران خان کی قیادت میں اجلاس میں شریک ہوئے، البتہ اس کے فوری بعد ہی متحدہ قومی موومنٹ نے ان کی شرکت کو آئین کے آرٹیکل 64 کی شق 8 کے تحت غیر قانونی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں : متحدہ قومی موومنٹ اسمبلیوں سے مستعفی

ایم کیو ایم نے تقریباً 2 ماہ قبل کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف جاری رینجرز آپریشن میں مبینہ طور پر متحدہ کو نشانہ بنائے جانے پر بطور احتجاج سندھ اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینٹ سے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کی اسمبلی میں واپسی کو مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ظفر علی شاہ نے چیلنج کیا تھا۔

سینیٹر ظفر علی شاہ نے ہی 12 اگست کو سپریم کورٹ میں ایم کیو ایم کو ایوان میں واپس لائے جانے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ جس دن ارکان پارلیمان نے استعفے دیئے تھے اسی دن سے موثر ہو گئے تھے۔

سپریم کورٹ نے بعد ازاں دونوں درخواستوں کو یکجا کرنے کا حکم دیا تھا۔