'وزیراعظم عافیہ کا معاملہ اوباما کے سامنے اٹھائیں'
اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملے کو امریکا کے سامنے اٹھانے سے متعلق کیس پر وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے 10 روز میں جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی، جس میں وزیراعظم نواز شریف سے ان کے دورہ امریکا کے دوران عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے.
درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ نواز شریف جب وزیراعظم نہیں تھے تو انہوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عافیہ صدیقی کی امریکا سے رہائی سے متعلق خط لکھا تھا، جس میں عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا تھا.
وکیل نے استدعا کی کہ عدالت وزیراعظم نواز شریف کو ہدایت جاری کرے کہ وہ 22 اکتوبر سے اپنے دورہ امریکا کے دوران امریکی صدر براک اوباما کے سامنے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ اٹھائیں.
درخواست گزار کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صدر سے عافیہ صدیقی کی قونصلر تک رسائی کی اجازت لی جائے.
جبکہ درخواست گزار کے خاندان کو عافیہ صدیقی سے ملاقات کی اجازت دلانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے.
سماعت کے بعد عدالت نے وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے 10 روز میں جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 19 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی عافیہ صدیقی بنیادی طور پر سائنسدان ہیں اور ان پر امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام ہے۔
عافیہ صدیقی کی کہانی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے نمبر تین اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔
مزید پڑھیں:'عافیہ صدیقی: 'لیڈی القاعدہ' سے 'لیڈی اسلامک اسٹیٹ
خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد 2003 میں ہی عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہوگئیں۔
لاپتہ ہونے کے 5 سال بعد مبینہ طور پر عافیہ صدیقی کو 2008 میں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
امریکی عدالتی دستاویزات کے مطابق 'عافیہ صدیقی کے پاس سے مبینہ طور پردو کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے عندیہ ملتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہیں' ۔
افغانستان نے انھیں امریکا کے حوالے کردیا اور جب عافیہ سے امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی عہدیداران نے سوالات کیے تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کردی، جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں۔ جس کے بعد انہیں امریکا بھیج دیا گیا جہاں 2010 میں انہیں اقدام قتل کا مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
ستمبر 2013 میں نواز شریف نے وزیر اعظم بننے کے 4 ماہ بعد یعنی 2 مارچ 2015 کو 43 سالہ عافیہ صدیقی کے حوالے سے گورنر ہاؤس کراچی میں عافیہ کے اہلخانہ سے ملاقات میں ان کی واپسی کی کوششوں کی یقین دہانی کروائی تھی۔
2013 میں امریکا کے دورے سے واپسی پر وزیر اعظم نواز شریف نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر بات کی، جبکہ امریکی حکام کا دعوی تھا کہ عافیہ صدیقی کا معاملہ زیر بحث ہی نہیں آیا۔