نقطہ نظر

پاکستان میں شدت پسندی کے عوامل اور اسباب

پاکستان میں شدت پسندی کی ایک وجہ اہلِ علم کی طرف سے اسے ایک علمی اور فکری چیلنج کے طور پر قبول نہ کرنا بھی ہے.

شدت پسند کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد مٹھی بھر اور پورے معاشرے کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔ وہ اپنے اصولوں پر زندگی بسر کرتے رہتے ہیں اور اپنی درسگاہوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہمیں آج کے ترقی یافتہ یورپ میں بھی مل جائیں گی کہ جہاں کچھ لوگ سیکولر معاشروں میں جہاں شخصی آزادی اپنی انتہا پر ہے، وہاں بھی سختی سے اپنے شدت پسندانہ خیالات پر کاربند ہیں۔ ہاں وہ ریاست اور نظام سے متصادم نہیں بلکہ اپنے مذہبی مقامات تک ہی محدود ہیں۔

تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ شدت پسند عناصر ریاست اور نظام پر اثر انداز ہو کر پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیں اور معاشرے میں اپنے وجود سے متعلق ایک خوف اور دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے اسی طرح کی صورتحال سے دوچار دکھائی دیتا ہے کہ یہاں شدت پسندی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ ریاست اور اس کے نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔

آئیے پاکستان میں اس مسئلے کے عوامل، اسباب اور پس منظر کا کھوج لگائیں تاکہ کسی ایسے حل کی طرف بڑھا جائے جس سے پاکستان میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے طوفان پر قابو پایا جاسکے۔

ہمارا یہ خطہ مذہبی رواداری کی ایک پوری تاریخ رکھتا ہے اور یہ سماج صدیوں سے کسی مذہبی و مسلکی تفریق کے بغیر ایک ساتھ رہتا چلا آیا ہے۔ موریہ خاندان کے تیسرے فرمانروا مہاراجہ اشوک اور مغلیہ سلطنت کے بھی تیسرے ہی فرمانروا شہنشاہ اکبر کا نام اس حوالے سے تاریخ نے خصوصی طور پر محفوظ رکھا ہے کہ انہوں نے مذہبی رواداری کی خصوصی مثالیں قائم کیں، لیکن بعد کے زمانے میں آخر وہ کون سے اسباب تھے کہ یہ خطہ، خصوصاً پاکستان، اپنے شدت پسندانہ تشخص کی وجہ سے دنیا میں جانا جانے لگا۔ ہم اپنے دائرے کو محدود رکھتے ہوئے قیامِ پاکستان کے وقت سے ان اسباب و عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے جو پاکستان میں شدت پسندی کے فروغ کا باعث بنے۔

یہاں صدیوں سے موجود مذہبی رواداری کی روایت اس خطے کی تقسیم کی وجہ سے بھی متاثر ہوئی اور وہ روایت اس وقت مزید کمزور ہوئی جب مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ تقسیم سے قبل ہندوستان میں مذہب کے سیاسی استعمال سے شدت پسند طبقے مضبوط ہونا شروع ہوئے اور انہوں نے تقسیم کا جواز بھی مذہبی اختلافات میں ڈھونڈنا شروع کر دیا۔

قومی اور سیکولر ریاست کے تخیل کے مقابلے میں مذہبی حکومت کے تصور نے اکثریت کو اپنے سحر میں جکڑ لیا اور یوں آج تک پاکستان میں اٹھنے والی ہر شدت پسند تحریک اپنے مقاصد کے لیے مذہب کا نام استعمال کرتی ہے تاکہ اکثریت کو اپنی جانب راغب کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ بیرونی طاقتیں بھی پاکستان میں اپنے مقاصد اور اہداف کے لیے مذہب ہی کو آلے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، اور ریاست و عوام کے خلاف بر سرِ پیکار قوتوں کی مالی سرپرستی بھی مذہب کے نام پر ہی کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ایک پوری معیشت وجود میں آچکی ہے۔ اب یہ جنگ محض نظریاتی دائروں کی جنگ نہیں، بلکہ مفادات اور اپنی اپنی بقا کی جنگ بن چکی ہے جس کی اتحادی اور مدمقابل قوتیں قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر موجود ہیں۔<کسی معاشرے کی تعلیمی پالیسی اور اس کو بروئے کار لانے والے اساتذہ نئی نسل کی ذہن سازی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم پاکستان میں پہلے دن سے ہی کوئی قومی اور انسان دوست تعلیمی پالیسی بنانے سے قاصر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بیک وقت کئی طرح کے نصابِ تعلیم ایک ہی طرح کے نتائج پیدا کرتے رہے ہیں۔ ہمارے اساتذہ اس تعلیمی پالیسی کی چھتری تلے مستقبل سے زیادہ ماضی کو زیادہ زیر بحث لاتے رہے، اور ہندو مسلم اختلافات، فرقہ وارانہ تعصبات اور دنیا پر حکومت کرنے کے خواب نے ایسی جنگجویانہ نفسیات کو جنم دیا جس نے معاشرے میں موجود شدت پسند عناصر کے حق میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔

اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے حکمران اور ریاست گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت جارحانہ رہے ہیں۔ اس تعلیمی پالیسی کے زیرِ اثر تیار ہونے والی نسل کو وہ بطور ایندھن استعمال کرتے رہے۔ یوں پاکستان میں شدت پسندی کی فصل پکتی رہی اور اس سے وابستہ عناصر کو بڑھاوا ملتا رہا۔ تنگ نظری، اپنے مذہبی حریفوں سے نفرت، عدم برداشت اور جارحیت ہمارے مزاج کا حصہ بنتی رہی اور ہم دنیا سے کٹتے کٹتے اپنے خول میں بند ہوتے چلے گئے۔

آج بھی پاکستان کا نظامِ تعلیم ایسا کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام ہے جس سے عوام میں قرار واقعی سماجی شعور اور انسانی رویے فروغ پا سکیں اور ہم تعصبات کی تنہائی سے نکل کر عالمگیر معاشرے کا باوقار حصہ بن سکیں۔ آج بھی ہمارا نصابِ تعلیم رواداری، انسان دوستی اور مسلّمہ انسانی اقدار پر خاموش ہے اور ہم خطے میں امن، سلامتی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ آج بھی ہمارے نصاب کے مضامین اپنی کمزوریوں کو زیر بحث لانے کے بجائے غیر ضروری مواد سے اٹے پڑے ہیں۔

ان سے زیادہ ضروری تھا کہ ہمارے قومی نصابِ تعلیم میں نوجوانوں کو یہ پڑھایا جاتا کہ ہم ایک علیحدہ مملکت قائم کرنے کے باوجود غربت، جہالت مافیاز کے راج، وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام کو ختم کیوں نہ کرسکے، ہم آج جدید دنیا کے ساتھ چلنے کے قومی تقاضے کیسے پورے کرسکتے ہیں، ترقی یافتہ معاشروں کی جدید صنعت و حرفت، سائنسی علوم اور مہارتیں اپنے ہاں کیسے منتقل کی جاسکتی ہیں، دیگر ممالک نے سماجی انصاف کے حصول اور معاشی ناہمواریوں کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا تجربات کیے ہیں اور ہم ان سے کیسے استفادہ کرسکتے ہیں۔

لیکن ہم اپنے نصاب تعلیم کے ذریعے تنگ نظری کا بیج بوتے رہے، جس کا نتیجہ بہرحال تنگ نظری کی فصل کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔ آج ہمارا ایسا کوئی قومی ادارہ نہیں بچا جہاں شدت پسندی کسی نہ کسی شکل میں موجود نہ ہو۔ اب شدت پسندی کا یہ زہر ہمارے قومی وجود کی رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے۔

پاکستانی تاریخ کا انتہائی درد انگیز باب وہ ہے جب پاکستانی سوسائٹی اوندھے منہ شدت پسندی کے اندھے کنوئیں میں جا گری۔ دو عالمی طاقتوں نے اپنی جنگ لڑنے کے لیے اس خطے کا انتخاب کیا اور دو ہاتھیوں کی لڑائی میں اس خطے کی برداشت اور روادارانہ روایات کو کچل کے رکھ دیا گیا۔

یہ جنگ یوں تو روس اور امریکا کی تھی، مگر اس جنگ میں ہم سانجھے دار بن گئے اور ہمارے معاشرے میں موجود شدت پسندی کی تمام نمائندہ قوتیں جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں متحد ہوگئیں۔ یوں پورا ملک شدت پسندوں کی آماجگاہ بن کر رہ گیا۔

مقامی اور بین الاقوامی شدت پسندی کے پاکستان میں اس اجتماع نے مذہبی رواداری کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر اسے دفنا دیا۔ اس جنگ کا بیس کیمپ پاکستان ٹھراا اور سی آئی اے جیسے بدنام زمانہ ادارے دہشت گردی کی عالمی منڈی سے ''مجاہدین'' بھرتی کر کے افغانستان میں روس کے خلاف فراہم کرتے رہے۔

اس عمل میں دنیا بھر کی شدت پسند قوتوں نے دامے، درمے، سخنے مدد فراہم کی۔ امریکا اور اس کے کچھ حلیف ممالک اس میں بہت سرگرم رہے۔ فاٹا اور آزاد قبائل جن کو شاید اسی مقصد کے لیے ابھی تک انگریز دور کے قوانین کے تحت چلا جا رہا تھا، وہاں تربیتی مراکز تیار کیے گئے۔ یوں پاکستان میں شدت پسندی کا لاوا پکتا رہا جو بعد ازاں آتش فشاں کی صورت میں پھٹ پڑا۔

اس سارے تناظر میں ایک مخصوص ذہنیت نے انتہا پسند اور شدت پسند طبقے کو اپنے مقاصد کے حصول میں معاون سمجھتے ہوئے اہم ریاستی اور سیکیورٹی اداروں تک رسائی فراہم کر کے انہیں اپنا شریکِ کار بنا لیا۔ شدت پسندوں اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں پر ایوانوں کے دروازے وا ہونے کے نتیجے میں انتظامیہ، فوج، سول اور سیاسی جماعتوں سمیت ملک کے اہم ترین اداروں میں مذہبی شدت پسند اور انتہا پسند در آئے۔

یہاں وہی کھیل کھیلا گیا جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ ایک عالمی طاقت نے دوسری عالمی طاقت کے خلاف لڑنے کو مقدس فریضے کا نام دیا۔ کسی کو بندوق تھمانا تو آسان ہے لیکن اس سے واپس لینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لرننگ (Learning) کے مقابلے میں ان لرننگ (Unlearning) زیادہ مشکل ہے، اور جب کوئی بیانیہ عقیدے کا حصہ بنا دیا جائے تو اسے یادداشتوں سے محو کروانا اور بھی زیادہ مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ فرد اسے اپنی زندگی کے اہم ترین مقصد اور مشن کے طور پر اپنا چکا ہوتا ہے۔

جب آپ کسی سے اس کا مقصد اور عقیدہ چھیننے کی کوشش کریں گے تو وہ آپ سے لڑے گا خواہ اسے آپ کے یا اپنے دشمن ہی سے کیوں نہ مدد لینی پڑے، اور ایسی صورتحال میں معاشرے میں موجود ہمدرد عناصر ان دیکھے انداز میں ان کی پشت پر آجاتے ہیں۔ یہی کچھ پاکستان میں ہوا کہ شدت پسند عناصر کو معاشرے کی مختلف پرتوں سے تعاون حاصل ہوتا رہا اور قومی عمارت کی بنیادوں میں شدت پسندی کا پانی رستے رستے ہمارے قومی وجود کی بنیادیں کھوکھلی ہو گئیں۔

پاکستان میں شدت پسندی کے جڑ پکڑنے کی ایک بڑی وجہ اہلِ علم اور دانشوروں کی طرف سے بوجوہ اس کو فکری اور نظریاتی سطح پر بطور ایک علمی اور فکری چیلنج کے قبول نہ کرنا بھی ہے کیونکہ افغان جنگ کے دوران ایسے دانشوروں کی حوصلہ شکنی کی گئی جنہوں نے پاکستان کی مقتدرہ کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس کے برعکس ایےق رسائل و جرائد جاری ہونے لگے جن کے سرورق کلاشنکوف، مشین گنوں اور جدید اسلحے کی تصویروں سے مزین ہوتے تھے۔

ان رسالوں اور جرائد میں چھپنے والے مواد نے سسپنس میں جاسوسی رسائل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

آج کے بعض مقبول کالم نگار جو آج دہشت گردی کے خلاف بڑی بڑی باتیں کرتے نہیں تھکتے، وہ بھی لنگر لنگوٹ کر اس ریاستی پالیسی کی حمایت کر رہے تھے ۔

شدت پسندی کی اس فضا کو پرواں چڑھانے اور پاکستانی معاشرے کو انتہا پسندی کے جہنم میں دھکیلنے میں سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالا، جو آج دہشتگردی کے خلاف سب سے بڑا کریڈٹ لینے کے لیے تیار رہتی ہیں۔

شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی میں ہماری سیاسی اور نام نہاد جمہوری حکومتیں ہمیشہ ہی تذبذب کا شکار رہی ہیں کیونکہ کسی نہ کسی طرح ان کے مفادات اس طبقے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں، مثلاً ووٹ بینک اور اپنی مقبولیت برقرار رکھنا وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان میں شدت پسندی کے یہ بنیادی اسباب ہیں۔ اس کے بعد معاشرے میں شدت پسندی کی بقاء اور استحکام کے لیے بہت سے اسباب اپنے اثرات و نتائج کے ذریعے شدت پسندی کو سازگار ماحول فراہم کرتے رہتے ہیں۔ ایسے اسباب کی ویسے ہی ہمارے جیسے معاشروں میں کبھی کمی نہیں رہی، مثلاً ناانصافی، معاشی محرومیاں، بے روزگاری، طبقاتی معاشرہ، طاقت کا جبر، ذات پات کا نظام، مذہبی گروہ بندی کا وجود، دہشت گردوں کے خلاف عدالتوں سے مؤثر فیصلوں کا نہ آنا وغیرہ وغیرہ۔

ضرورت آج اس امر کی ہے کہ ہمیں شدت پسندی کو ختم کرنے کی ہر کوشش کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ ہم عالمگیر معاشرے کا حصہ بن سکیں اور جدید دنیا کے شانہ بشانہ چل سکیں۔ بدقسمتی سے اس شدت پسندی کے باعث مسلمان معاشرے عام انسانی معاشروں سے پیچھے جاتے جا رہے ہیں، اس تنہائی کے سبب ہماری اپنی اصل شناخت گم ہوتی چلی جارہی ہے۔

مگر یہ راستہ اتنا آسان نہیں اور اس کے لیے سب سے پہلے تو چند مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ ان فیصلوں میں نصاب کو بہتر بنانا ، قومی بیانیے کی تبدیلی، اور خارجہ پالیسی کو مکمل طور پر ملکی و قومی مفاد کے زیرِ تحت تعمیر کرنا ہے۔ اگر یہ سب کچھ کیا جائے، تو ہی شدت پسندوں کے خلاف جاری جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ ورنہ یہ صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ ہے، اور جب تک سماج میں گہرائیوں تک موجود منفی ذہنیت کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جاتا، تب تک منفی ذہنیت کے ساتھ ہتھیار اٹھائے ہوئے چند ہزار افراد کو شکست مکمل فتح نہیں کہلا سکتی۔

محمد عباس شاد

محمد عباس شاد ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے ایڈیٹر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ قومی اور سماجی مسائل ان کی خصوصی دلچسپی کے امور ہیں جس پر ان کے تجزیے شائع ہوتے رہتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔