سحر میں جکڑ لینے والا ساز 'رباب'
پشتو موسیقی کی اپنی طویل تاریخ ہے اور اس کا ذکر قدیم کتابوں میں بھی ملتا ہے تاہم جب بھی روایتی پشتو موسیقی کی بات کی جائے اور رباب کا ذکر نہ آئے یہ ممکن نہیں۔
خیبرپختونخوا کی ثقافت کا تذکرہ ہی اس ساز کے بنا ادھورا سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ رباب جب بجتا ہے تو لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے اور اس کی گرفت زندگی بھر برقرار رہتی ہے۔
اس ساز کو سننا جتنا خوبصورت ہے مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس کو بنائے جانے کا عمل بھی انتا ہی دلچسپ ہے؟
درحقیقت ایک رباب بنانے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے اور یہ کسی اناڑی کے بس کی بات نہیں بلکہ ماہرین کی بھی معمولی سی غلطی ساری محنت پر پانی پھیر دیتی ہے.
رباب کو عام طور پر شہتوت کی لکڑی سے تیار کیا جاتا ہے، اس مقصد کے لیے لکڑی کو سکھانے کے بعد رباب کی شکل دی جاتی ہے ، بظاہر عام سے نظر آنے والے اس طریقہ کار کے تحت سادہ رباب کی تیاری دو ہفتو ں میں مکمل ہوتی ہے جبکہ نقش و نگار سے مزین رباب کی تیاری میں کئی کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔
رباب کی تین قسمیں ہیں، بڑے سائز کا رباب بائیس چھوٹے اور بڑے تاروں پر جبکہ درمیانے اور چھوٹے سائز کے رباب انیس اور اٹھارہ تاروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔
رباب کو بجانے سے قبل اسے سر میں لانا پڑتا ہے پھر اسکے چھوٹے تاروں کو بڑے تاروں سے جوڑنا پڑتا ہے جس سے تیز اور سریلی آواز نکلتی ہے۔
استاد خرم شہزاد کے مطابق رباب کی قیمت آ ٹھ ہزار سے شروع ہو تی ہے اور لاکھوں تک جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک زمانہ ایسا تھا جب رباب بجانا اور اس کی ضرورت کم محسوس ہونے لگی تھی لیکن اج کل نوجوان نسل ایک بار پھر اسکی جانب متوجہ ہورہی ہے۔
ان کے مطابق ’میرے دادا سمندر خان پہلے اسکا کام کرتے تھے پھر استاد ولایت خان اور اب میں کررہا ہوں، پاکستان میں رباب موسیقی کی بنیاد میرے دادا سمندر خان نے رکھی ہے‘۔
استاد خرم شہزاد کے مطابق پشاور میں رباب کی واحد دکان اب ان کی ہی رہ گئی ہے۔
گلگت کے شہر ہنزہ سے تعلق رکھنے والے مجیب الرحمن کے مطابق اپنے شوق کے باعث وہ دو سال سے رباب بجانے کے ساتھ ساتھ سیکھ بھی رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ رباب بجانا ان کی ثقافت کا حصہ ہے ،اسی لیے وہ بچوں کے لیے ہنزہ فاؤنڈیشن کی مدد سے ایک ایسا اسکول قائم کر رہے ہیں جہاں رباب کو بجانے کی تعلیم دی جائے گی۔
موسیقی سے بھرے اس ساز کی اہمیت خیبر پختونخوا میں آج بھی زندہ ہے جس کے باعث شائقین دور دراز سے اسے سیکھنے اور بنوانے کے لیے آتے ہیں۔