فیضی رحمین اور عطیہ بیگم کی محبت ایک لازوال داستان ہے۔ فیضی رحمین ایک یہودی تھے اور عطیہ مسلمان۔ دونوں کی شادی کی بنیادی وجہ ان کے مابین فنونِ لطیفہ سے دلچسپی تھی۔ فیضی رحمین اور عطیہ بیگم کی محبت بعد میں شادی میں تبدیل ہوگئی۔ عطیہ سے شادی کرنے سے قبل فیضی رحمین نے اسلام قبول کیا۔ ڈاکٹر محمد یامین کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کے مطابق فیضی رحمین 19 دسمبر 1880 کو ہندوستانی شہر پونا میں پیدا ہوئے۔ وہ پیدائشی یہودی تھے۔ ان کا پیدائشی نام سیمیول رحمین تھا۔
عطیہ فیضی کا تعلق ایک امیر و کبیر گھرانے سے تھا۔ عطیہ ترکی میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے میں بچیوں کی تعلیم کا تصور نہ تھا اور پردے کی پابندی تھی۔ عطیہ نے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ یورپ کی سیاحت بھی کی۔ سفرِ یورپ کے دوران ان کی مغربی دانشوروں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ ماہر القادری اپنی کتاب ”یادِ رفتگاں“ کے صفحہ نمبر 146 پر لکھتے ہیں:
”اس سفر نے ”نسوانی آزادی“ کے جذبے کو اور زیادہ افرنگ زدہ بنا دیا۔“ ان کے مطابق مہاتما گاندھی جب پہلی بار گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد بحری جہاز سے ہندوستان واپس آرہے تھے تو عطیہ بھی اسی جہاز میں تھیں۔ انہوں نے اصرار کر کے گاندھی جی کی انگلی میں آپسین چبھوئی اور گاندھی جی نے اپنی انگلی کے خون کا نشان عطیہ فیضی کی آٹو گراف بک پر ثبت کر کے دستخط کیے۔“
فیضی اور عطیہ بیگم کی شادی 1912 میں ہوئی اور یہ ساتھ 1964 میں فیضی کی وفات تک برقرار رہا۔ مارجری حسین کا مضمون روزنامہ ڈان کراچی میں 29 اکتوبر تا 3 نومبر 1996 کو شائع ہوا تھا۔ مضمون کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ معروف ادیب اور نقاد اجمل کمال نے اپنی مرتبہ کتاب ”کراچی کی کہانی“ میں کیا ہے۔ اس کے مطابق:
"1947 میں فیضی اور عطیہ بیگم قائد اعظم محمد علی جناح کی درخواست پر ممبئی چھوڑ کر کراچی میں آباد ہوگئے۔ انہوں نے بمبئی کے ”ایوانِ رفعت“ کو کراچی میں دوبارہ قائم کرنے کے کام کا آغاز کیا۔ قائد اعظم نے انہیں برنس روڈ پر ایک بڑا قطعہء زمین عطا کیا جس پر انہوں نے 30 لاکھ روپے کے ذاتی خرچ سے عمارت بنوائی۔ یہ عمارت دو الگ الگ مکانوں پر مشتمل تھی جو نفاست سے لینڈ اسکیپ کیے ہوئے باغ کے درمیان واقع تھے۔ ایک ان کی رہائش گاہ تھی اور دوسرے میں آرٹ میوزیم واقع تھا۔
"مصور لیلیٰ شہزادہ کو معمر میاں بیوی کی شفقت ہمیشہ یاد رہے گی۔ جب وہ بہت نو عمر تھیں، ان کو جمعے کی شام اپنی تصویریں دکھانے کے لیے بلایا گیا (یہ ان کے کام کی پہلی پبلک نمائش تھی)۔ حوصلہ افزائی کے طور پر فیضی صاحب نے اپنی بنائی ہوئی ایک ڈرائنگ انہیں عنایت کی۔
"یہ بات ناقابلِ یقین لگتی ہے کہ قائدِ اعظم کی خواہش کو ان کی وفات کے صرف دس برس بعد کس طرح بے دردی سے پامال کر دیا گیا۔ پاکستان کی پہلی مارشل لاء حکومت کے دنوں میں کراچی کے اس وقت کے کمشنر نے فیضی رحمین اور عطیہ بیگم کو نہایت سفاکی سے ان کے گھر سے بے دخل کر دیا۔
"اپنی موت تک ان ممتاز میاں بیوی کو بے انتہا توہین اور دشواری جھیلنی پڑی تھی۔ گھر سے نکال دیے جانے کے بعد ان کے جمع کیے ہوئے نوادرات اور تصویریں تھیلوں اور صندوقوں میں بند ہوگئیں۔ کوئی چارہ نہ پا کر یہ میاں بیوی پڑوس کے ایک تنگ و تاریک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے کر رہنے لگے۔ ان کا سامان اسی چھوٹے سے کمرے میں ایک ڈھیر کی شکل میں پڑا رہتا۔ عطیہ بیگم نے ایک ایک کر کے اپنے جواہرات کو بیچنا شروع کر دیا تاکہ زندگی کے اخراجات پورے کر سکیں۔
"آرٹ کے مقامی رجحانات نئے اور معاصر خطوط پر استوار ہو رہے تھے۔ نئے آرٹسٹ شہرت پا رہے تھے۔ فیضی رحمین کو کوئی کام نہ ملتا تھا اور ان کی بے بہا تصویروں کو بیچنے والا بھی کوئی نہ تھا۔
"معمر میاں بیوی اکثر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کراچی آرٹس کونسل کی طرف پیدل جاتے ہوئے دیکھے جاتے اور نمائشوں کی افتتاحی تقریبوں اور چائے کی دعوتوں میں بلائے جانے پر ممنون ہوتے۔ لیلیٰ شہزادہ نے ایسے ہی ایک موقعے پر ایک اذیت ناک نظارہ دیکھا کہ عطیہ بیگم کچھ بسکٹ پلیٹ سے چوری چھپے اٹھا کر اپنے بیگ میں رکھ رہی ہیں تا کہ بعد میں کھانے کے کام آسکیں۔"