خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
“بیٹے اپنی ماؤں سے ملنے کے لیے بھاگ کر گھر آتے ہیں، مگر تم نے واپسی کے لیے سست ترین طریقہ سوچا ہے!"۔ ان کی والدہ نے ان سے یہ تب کہا جب انہوں نے انہیں جرمنی سے پاکستان سائیکل پر آنے کے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔ سال 2011 ہے اور کامران علی نے حال ہی میں کمپیوٹر سائنسز میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی ہے اور یورپ کی سب سے بڑی انجینیئرنگ فرم میں انہیں ایک شاندار جاب مل گئی ہے۔ وہ جرمنی میں سال 2002 سے تھے۔
ہیلن کیلر نے ایک بار کہا تھا، "تحفظ زیادہ تر صرف ایک دکھاوا ہوتا ہے۔ یا تو زندگی جوکھم ہوتی ہے، یا پھر زندگی نہیں ہوتی۔" زندگی نہ ہونے سے زیادہ بہتر کامران نے یہ سمجھا کہ ان سڑکوں پر سائیکل چلائی جائے جہاں کسی نے کبھی نہیں چلائے، اور یوں انہوں نے جون 2011 میں روسٹوک، جرمنی سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔
وہ جرمنی سے ترکی پہنچے تو انہیں یہ پریشان کن خبر ملی کہ ان کی والدہ شدید بیمار ہیں۔ انہوں نے فوراً اپنہ منصوبہ ادھورا چھوڑا اور پاکستان کے لیے اڑان بھری۔ یہاں انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ ہسپتال میں دو مہینے گزارے، اور بالآخر وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ "میرا خواب ادھورا رہ گیا تھا، مگر اس سے بھی زیادہ یہ کہ میری والدہ اب میرے ساتھ نہیں تھیں، جن کے نام میں نے اپنا سفر منسوب کیا تھا۔"
دریائے سندھ اور چناب کے درمیان واقع ایک چھوٹے سے قصبے لیہ میں پلنے بڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے والے کامران نے ملتان سے ماسٹرز کیا اور پھر 2002 میں جرمنی منتقل ہوگئے۔ "میرا تعلق ایک نہایت متوسط طبقے کے خاندان سے ہے اور میرے 7 بہن بھائی ہیں۔ ابو کی پنکچر کی ایک چھوٹی سی دکان تھی اور وہ ہمارے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے سخت محند کیا کرتے۔" ان کے والد کا ایک خواب تھا، اور اسی خواب نے ان کے بیٹے کامران کو وہاں تک پہنچایا، جہاں تک پہنچنے کے لیے کوئی کوشش بھی نہیں کرتا۔
چار سال بعد مارچ 2015 میں انہوں نے اپنا سفر وہیں سے شروع کیا، جہاں انہوں نے چھوڑا تھا، یعنی ترکی کے شہر سیفاس سے۔ اس سفر کو شروع کرنے میں بھلے ہی چار سال لگے، مگر سائیکل پر اس سفر کو مکمل ہونے میں صرف 6 مہینے لگے جس کے دوران کامران نے 28 ممالک اور 10,000 کلومیٹر کا سفر کیا۔
وہ سامان جس نے 10,000 کلومیٹر تک ساتھ نبھایا
کیا اس طرح سفر کرنا مہنگا نہیں ہے؟ اور آخر ایسی کون سی سائیکل ہے جو اتنا مشکل سفر جھیل سکتی ہے؟ کامران کا کہنا تھا کہ ان کی زیادہ تر بچت سفری اور فوٹوگرافی کا سامن خریدنے میں خرچ ہو گئی، مگر سفر کے دوران زیادہ اخراجات نہیں آئے۔
"2011 میں میں نے ایک لیٹی ہوئی سائیکل خریدی تھی۔ اس کا نام مایا تھا۔ مگر اب میرے پاس ہیمبرگ، جرمنی میں تیار کردہ ایک Stevens X-8 Lite سائیکل ہے۔ اس کا نام رویا ہے۔ ویسے تو یہ ایک ٹریکنگ سائیکل ہے مگر میں نے اسے سفر کے لیے اپ گریڈ کیا ہے۔ میں ایک سفر میں تقریباً 25 کلو سامان اٹھاتا ہوں۔"
25 کلو سننے میں زیادہ نہیں معلوم ہوتا، مگر 25 کلو سامان، آپ کی سائیکل کا وزن، اور آپ کا اپنا وزن، یہ سب مل کر سفر کو کافی مشقت بھرا بنا سکتے ہیں۔