نقطہ نظر

تھیلیسیمیا سے متاثر بچوں کے لیے نئی امید

پاکستان میں 1 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو تھیلیسیمیا ہے اور ہر سال 5 ہزار سے زیادہ بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔

صحافت میں اپنے کریئر کے آغاز سے ہی میں نے پاکستان میں صحت کے شعبے سے متعلق ایک کے بعد ایک دل دہلا دینے والی کہانیاں سنی ہیں؛ مریضوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، گندگی سے بھرے ہسپتال، زائد المیعاد دوائیں، ڈاکٹروں کی غفلت؛ فہرست طویل اور مایوس کن ہے۔

مگر اسلام آباد کے F-9 پارک ایریا میں امید کی ایسی کرن ہے، جسے دیکھ کر میں نے سکون کا سانس لیا کہ کچھ تو اچھا بھی ہے۔

دونوں اطراف درختوں والی ایک پکی شارع آپ کو پاکستان تھیلیسیمیا سینٹر کی اپنی مثال آپ عمارت تک لے جاتی ہے۔

پاکستان تھیلیسیمیا سینٹر میں عید

تھیلیسیمیا خون کی موروثی بیماری ہے جس میں ہیموگلوبن کی پیداوار کم ہوجاتی ہے، اور خون کے سرخ خلیوں کے کمزور اور تباہ ہونے کی وجہ سے کئی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ خون کی موروثی طور پر لاحق ہونے والی یہ بیماری دنیا بھر میں سب سے زیادہ عام ہے۔ تھیلیسیمیا میجر (شدید تھیلیسیمیا) سے متاثرہ بچوں کو ساری زندگی علاج اور خون کی منتقلی کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔ اس بیماری سے بسا اوقات جلد موت واقع ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں 1 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو یہ مرض لاحق ہے، اور ہر سال 5 ہزار سے زیادہ بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ مریضوں کو مسلسل خون کی منتقلی کی ضرورت پڑتی ہے اور پاکستان تھیلیسیمیا سینٹر اگست 2015 سے یہی کام کر رہا ہے۔

پاکستان بیت المال کے تحت قائم ہونے والا پاکستان تھیلیسیمیا سینٹر اب تک 1500 مریضوں کو علاج کے ساتھ ساتھ مالی امداد فراہم کر چکا ہے۔

اس ادارے کی بنیاد رکھتے ہوئے پاکستان بیت المال کے مینیجنگ ڈائریکٹر عابد وحید شیخ نے ایک واضح تصور پیش کیا تھا:

اور عابد صاحب یہی کام کر رہے ہیں۔

یہ مرکز 5 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے اور یہاں آںے پر کوئی بھی شخص دیکھ سکتا ہے کہ 5 کروڑ روپے اچھی طرح استعمال کیے گئے ہیں۔

خون کی منتقلی کا مرکزی کمرہ (جو نیلے اور سفید رنگ سے رنگا گیا ہے) 20 بستروں پر مشتمل ہے جن پر مرض سے متاثرہ بچے موجود تھے۔ مگر ان تمام کے چہروں پر ایک مسکراہٹ تھی اور یہ دیکھنا مشکل نہیں تھا کہ ڈاکٹر کتنی احتیاط سے ان کا علاج کر رہے تھے۔ جب میں اس کمرے میں داخل ہوئی جہاں پر خون کی منتقلی جاری تھی تو مجھے بھی ایسی ہی خوشی محسوس ہوئی۔

اس مرکز کے سربراہ ڈاکٹر جاوید اقبال ہیں۔ ان کے مطابق اب تک وہ 200 مریضوں کا اندراج کر چکے ہیں جبکہ روزانہ کی بنیاد پر 20 مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر اقبال کے مطابق "تھیلیسیمیا قانون کاغذوں پر موجود ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا، اور یہی مرض کی تشخیص اور علاج میں بنیادی رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے اعتقادات اور رویے بھی ایک رکاوٹ ہیں کیونکہ عام طور پر لوگ شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ نہیں کرواتے"۔

شاید ہمارے عوام اب بھی "احتیاط علاج سے بہتر ہے" کا مفہوم نہیں سمجھتے۔

خون کی منتقلی کا کمرہ اس مرکز کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر ایک لیبارٹری اور بلڈ بینک بھی قائم کیا گیا ہے۔ سینٹری فیوج مشین اور خون محفوظ کرنے کی سہولت اس مرکز کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ کئی بے نام مخیر لوگ ایسے بھی ہیں جو اس مرکز کو چلائے رکھنے کے لیے مشینوں کا عطیہ کرتے ہیں۔

مگر بلڈ بینک میں خون کی تھیلیوں کی تعداد دیکھ کر مجھے مایوسی ہوئی۔ عابد وحید بھی اس بات پر افسردہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ باقاعدگی سے خون عطیہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے اس سے صحت پر برا اثر پڑتا ہے، جبکہ سائنس کے نزدیک ہر 6 ماہ میں ایک بار خون عطیہ کرنا آپ کی صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے۔

پاکستان بھلے ہی تھیلیسیمیا سے پاک ممالک کی فہرست میں نہیں ہے، مگر اس طرح کے مزید مراکز قائم ہوتے رہے تو یہ ایک دن ضرور ممکن ہوجائے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔

بتول راجپوت

بتول راجپوت ڈان نیوز کی اینکر پرسن ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: batulrajpoot@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔