عید درزی اور قصائی کے رحم و کرم پر
ہر طرف آلائشیں، سڑکوں پر بہتا خون، فضا میں تازہ کٹے گوشت کی بساند، یہ جنگ زدہ بغداد کا منظر نہیں، بلکہ عید الاضحیٰ کے پہلے پہلے دن کسی بھی پاکستانی شہر کا ہوتا ہے، جسے عام طور پر بکرا عید بھی کہا جاتا ہے۔
یہ وہ دن ہے جب ہر گائے اور بکرا جاگتا ہے تو اس کے منہ سے پہلا لفظ یہی نکلتا ہے، "او بھینس!"۔
یہ وہ دن ہے جب پاکستانی بچوں کو چھریوں کے ایکشن کے بعد بہتا خون دیکھنے کے لیے ہالی وڈ فلم دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ یہ ان کے سامنے ہی ہو جاتا ہے۔
یہ وہ دن ہے جب کئی پاکستانی اپنے مردہ جانوروں کی کھالیں بڑی سیاسی جماعتوں کو بلا جھجھک دے دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ وہ خود اپنا حشر اپنے بکرے جیسا نہیں دیکھنا چاہتے۔
مگر بکرا عید کے اثرات تو ایک ہفتہ پہلے سے ہی شروع ہوجاتے ہیں جب اس کی تیاریاں شروع ہوتی ہیں۔
یہ تب ہوتا ہے جب آپ ایک دن کام سے گھر واپس آتے ہیں، تو گلی میں داخل ہوتے ہی ایسی بدبو آپ کا استقبال کرتی ہے جو کسی ٹرک اڈے کے غسل خانے سے مخصوص ہوتی ہے۔ آپ تنگ آ کر پوچھتے ہیں، "آج کس نے لوبیا اور چھولے کھائے تھے؟"
اور تب ہی آپ کے کانوں میں بکرے کی با ہا ہا سنائی دیتی ہے تو آپ کو سمجھ آتی ہے کہ بدبو لوبیا چھولے کی وجہ سے نہیں بلکہ بکروں کی وجہ سے ہے۔