پکوان کہانی: بہاری کباب
مظہر الحق بہار سے تعلق رکھتے ہیں۔ تقسیمِ ہند پر وہ دس سال کی عمر میں میری نانی کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ ہم انہیں پیار سے آغا کہتے ہیں۔ انہیں ہم بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے رکھا گیا تھا۔ یوں تو ان کا لہجہ پختہ بہاری ہے، مگر انہیں بہاری کباب بنانے نہیں آتے۔ بچپن میں ہم جب بھی نانی کے گھر پر لذیذ بہاری کباب کھاتے تو میں یہی سمجھتی کہ وہ آغا نے بنائے ہیں۔ مگر اصل میں وہ نانی کے گھر کے قریب موجود کیفے خان سے ہوا کرتے تھے۔
یادوں کی گلیوں میں سفر کرتے ہوئے جب بہاری کباب کے ذائقے نے میرے منہ میں پانی بھر دیا تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں عید پر بہاری کباب بناؤں گی۔
یہ مانا جاتا ہے کہ ترک اور ایرانی سپاہیوں تازہ گوشت اپنی تلواروں پر لگا کر بھون کر کھانا پسند کرتے تھے۔ گوشت کے ٹکڑوں کو جانوروں کی چربی میں پکایا جاتا، اور تیار ہوتے ہی فوراً کھا لیا جاتا۔ سپاہی دور دراز زمینوں کو فتح کرنے جب نکلتے، تو زندہ رہنے کے لیے صرف شکار پر منحصر ہوتے۔ کباب کا حوالہ 1377 عیسوی میں ترکی زبان میں لکھی گئی کتاب قصہء یوسف میں بھی ملتا ہے۔
دوسرے کئی جنوبی ایشیائی لذیذ کھانوں کی طرح کباب کی بھی ایک منفرد اور دلچسپ تاریخ ہے۔ اس نے کئی زمانوں اور زمینوں کا سفر کیا ہے، اور یہ جس خطے سے بھی گزرا وہاں پر لوگوں نے اسے اپنے مقامی ذائقوں کے ساتھ آزمایا ہے۔
یہ ہر علاقے کے مقامی مصالحوں کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود یہ دنیا بھر میں یکساں مقبول ہے۔ بلاشبہ یہ واحد مشرقی کھانا ہے جو مغرب میں بھی اتنا ہی جانا پہچانا ہے۔
کباب ہمیشہ سے ہی دیہاتی زندگی کا پسندیدہ کھانا رہے ہیں۔ اور یوں تو یہ مغل پکوان کا ایک لازمی جزو تھے، پر اس کے باوجود جدید بہاری کباب بہاریوں اور بنگالیوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
ویسے تو بہاری کباب پرانے وقتوں کی طرح گوشت کے ٹکڑوں سے پکایا جاتا ہے، مگر یہ ان کبابوں کی طرح بالکل نہیں ہے جو کبھی ترک سپاہیوں نے کھائے ہوں گے۔ اس کے بجائے یہ انتہائی لذیذ اور منہ میں گھل جانے والی چیز بن چکا ہے جو دہی، مصالحوں، اور گوشت گلانے والے پپیتے کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔