دنیا

‘اسامہ پاکستان میں القاعدہ ریاست بنانا چاہتے تھے’

نئی کتاب ’Pakistan’s secret war on Al-Qaeda‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ القاعدہ رہنما 2008 ممبئی حملوں سے آگاہ تھے۔

اسامہ بن لادن نہ صرف 2008 ممبئی حملوں سے آگاہ تھے بلکہ وہ دو پڑوسی ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کے بعد پاکستان میں القاعدہ کی ریاست بنانے کے خواہش مند تھے۔

یہ انکشافات ڈان نیوز کے سابق نامہ نگار اور تحقیقاتی صحافی اعزاز سید کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’Pakistan’s secret war on Al-Qaeda‘ میں سامنے آئے ہیں۔

کتاب کے پہلے باب میں اسامہ کے قریبی ساتھی اور 11/9 حملوں کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کی ان کہی داستان بتائی گئی ہے۔

پاکستان میں خالد شیخ کے سہولت کار اور انہیں پکڑنے اور تحقیقات کرنے والے آئی ایس آئی افسران سے تفصیلی انٹرویوز کی مدد سے کتاب میں خالد سے متعلق نامعلوم حقائق پیش کیے گئے۔

کتاب کے مطابق، آئی ایس آئی کے میجر جنرل احتشام ضمیرکو امریکی سی آئی اے سے ایک انتہائی مطلوب شخص کے اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچنے کی خفیہ اطلاع ملی تھی۔

یہ شخص 11/9 حملوں کا ایک سعودی فائنانسر تھا اور آئی ایس آئی اہلکاراس کا پیچھا کرتے ہوئے ایک مکان تک جا پہنچے۔ یہ مکان ڈاکٹر عبدالقدوس کی ملکیت تھا جنہوں نے جرمنی اور سوڈان میں خالد شیخ سے دوستی کی تھی۔

خالد شیخ 1995 سے سیکیورٹی ایجنسیوں کو چکمہ دیتے آئے تھے جب ان کے بھتیجے یوسف رمزی کو پاکستان میں ایک گیسٹ ہاؤس سے گرفتار کر لیا گیا۔

رمزی امریکا میں سی آئی اے افسروں کے قتل میں امریکی حکام کو مطلوب تھے۔ خالد شیخ بھی اسی گیسٹ ہاؤس میں موجود تھے لیکن وہ کسی نہ کسی طرح گرفتاری سے بچ نکلے۔

بعد ازاں کئی سالوں بعد خالد شیخ کو 11/9 واقعہ کے ایک سعودی فائنانسر مصطفی حاساوی کے ہمراہ پاکستان میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ حقیقت میڈیا میں رپورٹ نہ ہو سکی۔

اسامہ کی گوشہ نشینی

کتاب کے ایک اور باب میں اسامہ کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق معلومات شیئر کی گئی ہیں۔

کتاب میں بتایا گیا کہ اسامہ اپنے قریبی ساتھیوں کویتی برادران کے مہمان تھے، تاہم کویتی برادران نے ان کی شناخت کواپنے اہل خانہ سے خفیہ رکھا۔

ایک موقع پر جب اسامہ کی تیسری بیوی امل کو زچگی کے دوران ایک ہسپتال منتقل کیا گیا تو کویتی برادران نے سچائی چھپانے اور سرکاری حکام سے بچنے کیلئے طبی عملہ کو بتایا کہ امل قوت گویائی اور سماعت سے محروم ہیں۔

القاعدہ رہنما نے گرفتاری سے بچنے کیلئے اپنا حلیہ بھی تبدیل کر لیا تھا۔ وہ کلین شیو اور پگڑی پہننے سے گریز کرنے لگے۔ انہوں نے امریکی کمانڈوز کے چھاپے میں ہلاکت سے کچھ دن پہلے ہی داڑھی بڑھائی تھی۔

کتاب میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسامہ کی ایک بیٹی کی کویتی برادران کے اہل خانہ میں شادی ہوئی اور وہ ان دنوں کوہاٹ میں رہائش پزیر ہیں۔

کشیدہ تعلقات

اعزاز سید نے اپنے کتاب میں دعوی کیا کہ ماضی میں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان تعلقات کشیدہ رہ چکے ہیں۔

آئی ایس آئی کے دو میجر جنرل کی سطح کے افسران نصرت نعیم اور آصف اختر نے سی آئی اے کو اس حد تک ناراض کیا کہ سی آئی اے نے آئی ایس آئی سربراہ جنرل کیانی کوان کے خلاف ’پنک پیپر‘ بھیجے۔

اعزاز سید نے لکھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل شجاع پاشا نے انکشاف کیا تھا کہ امریکیوں کو 2007 میں اسامہ کے ٹھکانے کے بارے میں غلط فہمی ہوئی تھی۔

اُس وقت کے امریکی نائب صدر ڈک چینی نے مشرف کو دستی طور پر ایک چٹ دینے کیلئے ہنگامی دورہ کیا تھا۔

ڈک چینی نے مشرف سے کہا تھا کہ وہ ان کے جانے کے بعد چٹ پڑھیں جس میں لکھا تھا ’ ہمیں شبہ ہے کہ اسامہ پاکستان میں ہیں‘۔

اس کے بعد جب اسامہ کی تلاش کا کام شروع ہوا تو پتہ چلا کہ جس شخص کو اسامہ سمجھا جا رہا ہے وہ دراصل القاعدہ رہنما سے حیران کن مشابہت رکھنے والا ایک افغان سمگلر ہے۔

کتاب کے ایک اور باب میں پاکستان فوج کے دو سابق کرنلز کا تذکرہ ہے۔ ان میں سے ایک سی آئی اے کا ملازم جبکہ دوسرا کرنل مختلف غیر ملکی سفارت خانوں کو اپنی نجی سیکیورٹی کمپنی کی خدمات فراہم کرتے تھے۔

اعزاز سید نے کتاب میں یہ بھی بتایا کہ کس طرح جنرل کیانی دبئی میں بے نظیر بھٹو سے ملاقات کے بعد فوج کے سربراہ بنے۔