نقطہ نظر

کڑوی گولی

ہمارے محبِ وطن عوام ایک پرسنٹ جی ایس ٹی کی خاطر اس ملک کو خطرے میں تو نہیں ڈال سکتے


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/97538737" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


بچپن سے ایک ہی نعرہ سنا کرتے تھے  کہ؛

’لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی‘!

پھر ہوا یہ کہ سرکار کے پاس لاٹھی ہی رہ گئی جس سے وہ قوم کو ہانکنے کا کام لیتی ہے اور گولی کا کام اس نے غیر سرکاری لوگوں کے حوالے کردیا تاکہ وقتِ ضرورت وہی قوم سے نمٹ لیا کریں اور ان کی بدولت سرکار کی لاٹھی بھی بچی رہے گی اور سانپ بھی مر جائے گا۔

لیکن ہماری اردو زبان میں تو گولیاں اور بھی ہیں۔ ان میں کچھ دینے کے کام آتی ہیں تو کچھ نگلنے کے۔ آجکل زور شور سے ذکر اس گولی کا ہو رہا ہے جو نگلنے کے کام آتی ہے۔

جی، اسے عرفِ عام میں 'کڑوی گولی' کہا جاتا ہے اور وہ ہوتی بھی عام لوگوں کے لیے ہی ہے کہ آئے دن انہیں  ہی یہ کڑوی گولی کھانے کے مشورے بالکل فری دیے جاتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی لازمی بتایا جاتا ہے کہ یہ تو آپ کا نصیب ہے آپ کو تو کھانی ہی پڑے گی چاہے آپ کا دل کھانے کو راضی ہو یا نا ہو۔

کڑوی گولی تو بنی ہی عوام  کے لیے ہے۔ ملک کے مستقل اور عارضی حکمران اپنے آپ کو کڑوی گولی کےلائق تو بالکل نہیں سمجھتے۔ کیونکہ دن میں اگر نہیں بھی تو راتیں ان کی بھی اور بہت ساری کڑوی کسیلی چیزوں کو وافر مقدار میں استعمال کرنے میں بسر ہوتی ہیں۔ یہ کڑوی گولی تو بس غریب عوام کا ہی نصیب ہے۔

یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ اپنے عوام جب برسوں سے ملک و ملت کے لیے کڑوی گولیاں نگلتے آئے ہیں تو اب بھی اسے اپنی قسمت سمجھ کرچپ چاپ نگل ہی لینگے۔

 اپنا اپنا نصیب ہے۔ اہلِ اقتدار کے لیے کڑوے مشروب ہیں تو عوام کے لیے کڑوی گولی۔ سال میں ایک نہیں کئی بار اس کڑوی گولی کو بجٹ کے نام پر نگلنا ہی پڑتا ہے۔ جہاں بجٹ کے اعداد و شمار حکمرانوں کے خوابوں میں رنگ بھرتے ہیں، وہاں وہی اعداد و شمار عوام کو اس کی اندھیری بھول بھلیوں میں بھٹکنے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ اور پھر یہی اعداد و شمار کیڑے مکوڑوں کا روپ دھار لیتے ہیں اور غریب عوام کو نوچ نوچ کر ان کے جسم میں باقی رہ گئے ماس اور خون کو بھی نچوڑ لیتے ہیں۔

ویسے یہ اعداد و شمار اس کے بنانے والوں کے پلے بھی نہیں پڑتے تو اسمبلی میں بیٹھے لا میکرز جو لا میکرز کم اور لا کریکرز زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کے بھی سر سے گذر ہی جاتے ہیں۔

لیکن چونکہ پارٹی کا حکم ہوتا ہے۔ وہ بغیر پڑھے، سمجھے اس کی منظوری بھی دے دیتے ہیں کہ ان کے گھر سے تو کچھ نہیں جا رہا ہوتا نا۔ البتہ کچھ آنے کی ہی امید ہوتی ہے۔ اس لیے وہ تو آنکھیں بند کر کے منظوری دے ہی دیتے ہیں۔ باقی جو کچھ بھگتنا ہوتا ہے وہ تو عوام کو ہی بھگتنا ہوتا ہے۔

اپنے لا میکرز جو حزبِ اختلاف میں ہوں یا اقتدار میں، جنہیں علاج معالجے کے ساتھ ساتھ ایمان تازہ کرنے اور پچھلے گناہ معاف کروانے کی سہولیتیں بھی وافر مقدار میں میسر ہوتی ہیں۔ سو وہ تو اپنا روایتی کردار ہی ادا کرتے ہیں۔ اگر حزبِ اختلاف میں ہیں تو آنکھ بند کرکے مخالفت کرنی ہے اور اگر اقتدار میں ہیں تو صرف واہ واہ پر ہی اکتفا کرنا ہے۔

پڑھنا وڑھنا دونوں نے نہیں کہ یہ تو دونوں کا کام نہیں. اس کے لیے ویسے بھی انہوں نے اور بندے ہائر کیے ہوتے ہیں جو اسمبلی میں ان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتے اور نا ہی اعداد و شمار کی گتھی سلجھانے میں ان کی کوئی مدد کرسکتے ہیں۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ اعداد و شمار کی گتھی سلجھاتا پھرے۔ یہاں تو سب چلتا ہے۔

انکے ترقیاتی پروگراموں یا مارجن میں کوئی فرق پڑتا ہوتو فکر بھی کریں۔ باقی عوام جانے اور عوام کا نصیب!

ویسے بھی عوام کو ہی کڑوی گولیاں نگلنے کا تجربہ ہے۔ یہ بچارے تو ہیں ہی ناتجربے کار، اس لیے آپ ان سے ایسی توقع نا ہی رکھیں تو اچھا ہے۔ عوام کا ساتھ رہے گا تو یہ سال بھی گذر ہی جائے گا۔ باقی پھر اگلے سال، ویسے بھی اپنے عوام تو ہیں ہی پھر  پریشانی کی کیا بات ہے۔

یہ جونئے نئے قرضے لیتے ہیں وہ تو پچھلے قرضے لوٹانے کے لیے لیتے ہیں۔ ان بے چاروں کو تو پھوٹی کوڑی بھی نصیب نہیں ہوتی۔ آپ کو تو معلوم ہے، خزانہ تو کب سے خالی ہے۔ یہ تو ان کی ہمت ہے کہ خزانہ خالی ہونے کے باوجود بھی آپ کو ترقیاتی اسکیمیں دیتے ہیں، روڈ، راستے اور بلٹ ٹرین جیسے تحفے دیتے ہیں۔

بجلی، گیس نہیں تو کیا ہوا، یہ بات فخر کے لیے کم نہیں کہ آپ ایٹمی ملک ہیں۔ گھاس کھاکر، پیٹ پر پتھر باندھ کر دنیا کی قوموں کے درمیان سر فخر سے اونچا کرکے چل رہے ہیں۔ ہم پر کوئی بری نگاہ ڈال کر تو دیکھے۔ ہماری بہادر افواج کو اپنے ملک کی حفاظت کرنی خوب آتی ہے ۔ ویسے بھی اس کا تو دنیا کی بہترین فوجوں میں شمار ہوتا ہے۔

یہ جو تھوڑی بہت بد امنی ہے۔ وہ تو ان سیاستدانوں کی وجہ سے ہے اور اس سے یہ لوگ خود ہی نمٹینگے۔ فوجیں تو سرحدوں کی حفاظت کی ذمیدار ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بھی اس ملک کی حفاظت کیے جا رہی ہیں۔

اور جو کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ بجٹ ملک کے دفاع میں ہی چلا جاتا ہے تو ایسی کوئی بات نہیں۔ آخر اتنے بڑے بڑے ملک ہمارے دشمن بنے بیٹھے ہیں اور ان کے بجٹ آپ کو معلوم ہیں؟ ہمارا بجٹ تو ان کے سامنےکچھ بھی نہیں۔

اب کہتے ہیں کہ جی ایس ٹی کا ایک پرسنٹ ختم کروانا ہے تو دفاع کے بجٹ میں کٹوتی کریں۔ ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تو سراسر ملک دشمنی ہے۔ ہمارے محبِ وطن عوام ایک پرسنٹ جی ایس ٹی کی خاطر اس ملک کو خطرے میں تو نہیں ڈال سکتے! جیسے اپنے محبِ وطن عوام نے پہلے اس ملک کے لیے قربانیاں دی ہیں اب بھی دینگے۔ کڑوی گولیاں نگلنے کے وہ تو کب سے عادی ہیں۔

یہ جو کہتے ہیں کہ جن کو سرحدوں پر ہونا چاہئے وہ شہروں میں بیٹھے کیا کر رہے ہیں تو انہیں نہیں معلوم کہ شہروں میں بھی بد امنی کو انہوں نے ہی کنٹرول کیا ہوا ہے۔ یہ دہشت گرد تو نجانے کیا کریں اگر ہم شہروں میں نا ہوں۔

پولیس کا تو اب کوئی کام رہ نہیں گیا۔ شہر بھی مکمل طور پر ہمارے حوالے کردیں پھر دیکھیں کیسے کنٹرول نہیں ہوتا۔ آپ کو پتہ ہے جب بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے یا ٹارگیٹ کلنگ میں اضافہ ہوتا ہے تو قوم ہماری ہی طرف دیکھتی ہے۔ ہم نے ہی اس قوم کو اور ملک کو پینسٹھ برسوں سے بچا کر رکھا ہوا ہے اور انشاللہ اب بھی ہم ہی بچائینگے۔ باقی جو دفاع کے بجٹ میں کٹوتی کی باتیں کر رہے ہیں اس کے پیچھے ضرور کوئی گہری سازش ہے۔

اللہ جنرل مشرف کو حیات رکھے انہوں نے تو بجٹ میں ایک نئی روایت ڈالی، اپنے ملک کا دفاع کرنے والوں کی پینشن بھی سول بجٹ میں ڈالدی۔ اس کی وجہ سے تو دفاعی بجٹ اب ویسے بھی کچھ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ شکر ہےان نمائندوں کی اس پر نظر نہیں پڑی۔ اور سب سے بڑی بات جنرل صاحب نے فوجی تنخواہ بھی سول سروس والوں سے دوگنی کردی!

اب فرق تو بالکل واضح ہے۔ ہم اپنی زندگیوں پر کھیل کر اس ملک کی حفاظت کر رہے ہیں۔ سول سروس والوں کو ایسا کیا کرنا ہوتا ہے کہ انہیں اتنی بڑی تنخواہیں ملیں۔ رہی  پولیس تو اس کو تو چھوڑ ہی دیں۔ وہ تواپنا خرچہ ویسے ہی نکال لیتی ہے تو ان کی تنخوہیں بڑھانے کی تو کوئی بھی ضرورت نہیں۔

ہم تو کہتے ہیں کہ اپنے محبِ وطن عوام کے ہوتے ہوئے کسی کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ عوام کے ساتھ سے سب کچھ اسی طرح ہی چلتا رہے گا۔ وہ ہر مصیبت جھیلے گی لیکن اس ملک پر کوئی خراش بھی نہیں آنےدیگی۔ پاک عوام اور اس کے جذبے کو سلام جو ہمیشہ ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں سب کچھ جھیلنے کے لیے تیار رہتی ہے۔


خدا بخش ابڑو
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔