اب کی بار دریائے عاشقاں کے کنارے
میں خواب دیکھتا ہوں، تعبیروں کی جستجو میں جلتے سفر کے خواب، دور دراز کی جھیلوں کے خواب، رنگوں کے خواب، لوگوں کے خواب، سفر سے تھکے منظروں اور تاروں بھری راتوں کے خواب۔ یہی خواب تو ہیں جنہوں نے مجھے تعبیر کی چاہ میں مسلسل سفر میں رکھا ہے۔ مجھے یقین ہے جس دن خواب آنے بند ہو گئے انسان سونا چھوڑ دے گا۔ ایک سفر تو وہ ہے جو زمین کے سینے کو اپنے پاؤں تلے روند کر کرتا ہوں مگر ایک سفر وہ بھی تو ہے جو اندر سے باہر کی طرف ہے، یا باہر سے اندر کی طرف۔ معلوم سے نامعلوم کی طرف یا نامعلوم سے معلوم کی طرف۔ ایک سفر وہ بھی ہے جس میں جسم نہیں دل تھکتا ہے۔ رشتے ڈھونے کا سفر، تعلقات نبھانے کا سفر۔ سفر کی بہت سی جہتیں ہیں۔
نئے سفر کے خواب دیکھنا بھی بڑا خوشگوار ہوتا ہے۔ بادِ شمال انسان کو جکڑ کے رکھ دیتی ہے۔ ایک بار جو جاتا ہے اس کو شمال کی ہوا پھر سے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کھلا شفاف نیلگوں آسمان اور رات میں سلمہ ستاروں سے لدی فلک کی چادر کہ جس کا ایک ایک ستارہ ٹم ٹم کرتا نظر آتا ہے۔ پانیوں کے کناروں پر گرمیوں کی ہوا جب چلتی ہے تو اس میں ایسا نشہ ہوتا ہے کہ انسان کا دماغ بالکل خالم خالی خلا جیسا لگتا ہے جیسے کہیں اور معلق ہو۔
اکتوبر کے آخر سے اپریل کے آغاز تک بادِ صرصر پتوں کو اڑاتے پھرتی ہے۔ یہ شمال میں تیز ہواؤں کے موسم ہیں۔ بادِ شمیم ہو یا بادِ صرصر اصل میں بادِ شمال آپ کو جکڑتی ہے اور آپ کے اندر وہی حال کرتی ہے جو درختوں کے ساتھ کرتی ہے۔ کبھی بہار کے رنگ کھِلاتی ہے کبھی خزاں جیسا اداس چھوڑ جاتی ہے۔ انسان شہروں میں اپنے کام پر، نوکری پر، گھر پر، رشتے داروں میں، دوستوں میں، بازار میں بولتا ہی چلا جاتا ہے، بولتا ہی چلا جاتا ہے اور سنتا ہی چلا جاتا ہے پر سمجھتا کچھ نہیں۔
ایک عجیب چِک چِک صبح جاگنے سے شروع ہوتی ہے اور رات آنکھیں بند کرنے تک آپ کے پیچھے لگی رہتی ہے۔ ذہن تھک جاتے ہیں پر دھندے ختم نہیں ہوتے اس لیے سوچنے سمجھنے، گتھیاں سلجھانے، لکھنے لکھانے، اور شور سے بھاگ کر انسان تنہائی کی گود میں پناہ لیتا ہے اور یہ ایسا ماں جیسا سلوک کرتی ہے کہ انسان کو پھر سے ٹِیون کر دیتی ہے، چارج کر دیتی ہے اپنی روزمرہ کی دنیا میں لوٹنے کے لیے۔ تنہائی انسان کو شعور بخشتی ہے اور شہروں، دوستوں، رشتوں اور کاروبار کے شور اس کے شعور کا امتحان لیتے ہیں۔ امتحان سے ذہن تھکتے ہیں، انسان پھر تنہائی کی طرف بھاگتا ہے اور اس طرح زندگی کا دائرہ چلتا رہتا ہے۔
نوکری کی زنجیر پاؤں میں ڈالی ہو تو پھر غمِ روزگار میں الجھا انسان اتنا ہی سفر کر سکتا ہے جتنی زنجیر کی ڈھیل ہو۔ بھلا ہو میرے شہر کے قریب کھِلنے والے ایک منظر کا کہ جس کو دیکھ کر شمال کی یادیں بہل جاتی ہیں مگر یہ منظر بھی کم کم ہی کھِلتا ہے۔ اس کی بھی اپنی رت اور موسم ہے۔
وسط فروری سے وسط مارچ کے درمیان جب بارشوں کے بعد موسم کھلنے لگے تو جموں و کشمیر کے برف پوش پہاڑ، جنہیں پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے کے نام سے جانا جاتا ہے، یوں نظر آنے لگتے ہیں جیسے یہیں کہیں آس پاس موجود ہوں۔ یہ نظارہ گجرات سے نارووال تک کے سارے علاقے میں کیا جا سکتا ہے۔ عام دنوں میں گرد و غبار کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں پڑتا۔ یہ برفوں سے ڈھکے ہمالیائی سلسلے کے پہاڑ مون سون میں بارشوں کے بعد مطلع صاف ہونے پر بھی دِکھتے ہیں مگر ایسے جیسے خدا نے زمین میں کالے کیل گاڑ رکھے ہوں۔ ان میں چھ ہزار میٹر سے بلند کوئی چوٹی نہیں لہٰذا موسمِ گرما میں ان کی برفیں پگھل جاتی ہیں، سفید چادر اتر جاتی ہے۔
دریائے چناب کے کنارے آباد سیالکوٹ ہنرمندوں کے شہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ شاید چناب کا ہی اثر ہے کہ جس کے پانیوں میں ایسا امرت گھلا ہے کہ اس کے کنارے بسنے والے شہر، بستیاں، گاؤں زمین کے ساتھ ذہن سے بھی سدابہار زرخیز ہیں۔ اقبال، فیض احمد فیض اور شیوکمار بٹالوی سمیت کئی ذہین لوگوں نے یہاں سے جنم لیا۔ دریائے چناب شہر سے 20 کلومیٹر دور مرالہ کے مقام پر پرسکون بہتا رہتا ہے۔ مجھے دریاؤں سے عشق ہے اور چناب سے ایسا رشتہ ہے جسے الفاظ میں سمونا ممکن نہیں۔ سیالکوٹ کا باسی ہونے کے ناطے مجھے یہ سہولت حاصل ہے کہ صاف موسم میں بارشوں کے بعد میں دریائے چناب سے باتیں کرنے اور پس منظر میں دکھائی پڑنے والے برف پوش پہاڑوں سے شمال کی یادیں بہلانے نکل کھڑا ہوتا ہوں۔ محبتوں کے دریا چناب کے پانیوں میں آج بھی سوہنی کے گھڑے کی گھلاوٹ محسوس ہوتی ہے۔
جموں کے پہاڑوں میں ایک چھوٹے سے نالے کی صورت بہتا یہ دریا سرحد کے اس پار چندربھاگ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ جوں جوں پانی سفر کرتے ہیں ہمالیہ کے پہاڑوں سے پگھل کر آنے والی برفیں ان میں شامل ہو کر اسے دریا کا روپ دیتی جاتی ہیں۔ پہاڑوں سے اتر کر کھلے میدانی علاقے میں پہنچنے تک چندربھاگ اپنا نام بدل لیتا ہے۔ چناب بہتا رہتا ہے۔ ہیڈ تریموں کے مقام پر دریائے جہلم اس میں آن ملتا ہے اور کچھ آگے راوی اور ستلج کے پانی اس میں گھل جاتے ہیں۔ پھر یہ پانیوں کا ریلا اپنے آپ کو بزرگ دریائے سندھ کے سپرد کر دیتا ہے اور دریائے سندھ خاموشی سے ان پانیوں کی انگلی تھامے سفر کرتا سمندر میں اتر جاتا ہے۔
لگ بھگ ایک ہزار کلومیٹر سے زائد مسافت طے کرتا دریائے چناب اپنے اطراف بسی آبادیوں کو سیراب کرتا چلتا رہتا ہے۔ اس کے پانیوں میں کہیں کشمیر کی مٹی ہے تو کہیں سوہنی کے گھڑے کی گھلاوٹ۔ کناروں پر وفا کی انمٹ لوک داستانیں بکھری ہوئی ہیں جن میں رانجھے کے چپو بھی ڈھلے ہوئے ہیں۔ اپنے محبوب سے ملنے کی چاہ میں کچے گھڑے والی ڈوب گئی لیکن داستانوں میں امر ہو گئی۔ چناب کنارے پانیوں کی روانی کو دیکھ کر مجھے مصطفیٰ زیدی کا یہ شعر اکثر یاد آنے لگتا ہے
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
وسط فروری میں دریا کے ساتھ ساتھ زرخیز زمینوں میں سرسوں پھولتی ہے۔ پیلے پھولوں کی رت کھِلتی ہے تو ہلکی دھوپ میں کھیتوں کے درمیاں سے نکلتی چھوٹی کچی پگڈنڈیوں پر چلتا سامنے نظر آنے والے برف سے لدھے کشمیر کے پہاڑوں کو تکتا میں ایک اور دنیا میں جا نکلتا ہوں۔ کھیتوں میں یہ کام کے دن ہوتے ہیں۔ مرد و عورتیں اپنے اپنے روزمرہ کے کاموں میں مگن دکھائی پڑتے ہیں۔ کہیں کہیں سورج مکھی کے پھول بھی منظر کو اپنا جمال عطا کرتے ہیں۔ وہیں چناب کے پانیوں پر اترتے پرندوں کے قافلے فضا میں تیرتے رہتے ہیں اور کبھی سارا کا سارا جھنڈ تھکن کا شکار ہو کر پانیوں پر اتر جاتا ہے۔ یہ سائبیریا سے ہجرت کر کے گرم علاقوں میں آنے والے مہمان پرندے ہیں۔ ہجرت زدوں میں کونجوں کی اتنی قسمیں ہیں شمار نہیں کی جا سکتیں۔ لمبی بڑی ٹانگوں والے ہنس ہیں جو ایک ٹانگ پر کھڑے دوسری اپنے پروں میں چھپائے، گردن کو جھکائے چپ چاپ کھڑے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے کسی وجدانی کیفیت میں ہوں۔ اس سارے منظر میں مجھے لگنے لگتا ہے جیسے میں ایک خوشنما پینٹنگ کا حصہ بن گیا ہوں۔
میں نے کئی شب و روز چناب کے کنارے بسر کیے ہیں۔ کبھی اس دریا نے مجھے اپنی دھنیں سنائی ہیں کبھی میں نے اس کے پانیوں کو اپنی آنکھوں کے پانی ارپن کیے ہیں۔ دریا میں کشتیاں چلتی ہیں۔ سورج ڈھلے ان کشتیوں کو پانی کا سفر کرتے دیکھنا ایک محبوب مشغلہ رہا ہے۔ لوک کتھاؤں والے دریاؤں کو عجب طور سے تقسیم کرتے آئے ہیں۔ چناب عاشقاں، راوی راسقاں اور سندھ صادقاں۔ عاشقوں کے دریا چناب کنارے بسر ہوئے لمحے اکثر یادوں میں گنگنانے لگتے ہیں تو میں پھر سے اس کے کناروں پر جا بیٹھتا ہوں۔ سردیوں کی دھند بھری صبحوں میں جب زمین و آسمان کو کہرے نے ڈھانپ رکھا ہو تو چناب کے پانی بھی بے رنگے لگتے ہیں۔ ان موسموں میں چناب کی روانی میں سکوت آ جاتا ہے۔ ٹھہرا ہوا سا لگتا ہے۔ اس کی سطح پر بہتے جنگلی دریائی پتے ٹھہرے ہوئے نقطے لگتے ہیں جیسے کسی نے پانی پر نشان لگا دیا ہو۔ وہیں ایک وارث ملاح ہے جو دریا میں کشتی چلا کے روزی کماتا ہے۔ سورج ڈوب چلا تھا جب پہلی بار ملاح سے ملاقات ہوئی۔
وارث ملاح کے دکھ بھی گہرے تھے۔ دریا سامنے تھا مگر پیاس سے حلق میں کانٹے چبھنے لگے تھے۔ میں ہونٹوں کے کناروں پر زبان پھیرتے ہوئے وارث ملاح کی باتیں سن رہا تھا۔ پانی ساتھ لانا بھول گیا تھا کہ میرے پروگرام میں اتنا لمبا ایک جگہ پر بیٹھنا نہیں لکھا تھا۔ وارث ملاح ادھیڑ عمر کا شخص تھا اس کی داڑھی سفید ہو چکی تھی لیکن سر کے بال کافی حد تک کالے تھے۔ نظر کافی کمزور تھی چہرے کی جھریاں نمایاں تھیں۔
اب سے کچھ دیر پہلے چناب پر سورج ڈوب رہا تھا۔ بادل رنگے گئے تھے دریا میں کشتیوں والے آہستہ آہستہ لنگر ڈالنے لگے۔ میں نے کیمرا پیک کیا اور سگریٹ پینے کے لیے رک گیا۔ وارث ملاح لنگر ڈال کے میری طرف آیا، بڑی گرمجوشی سے اس نے میرا حال احوال پوچھا، پھر ایک سگریٹ مانگا۔ میں نے بابا جی کے روزگار یعنی کشتی رانی کے متعلق بات کرنی شروع کر دی۔ بات جو چلنا شروع ہوئی تو وارث ملاح بولتا ہی گیا اس کے پاس دل کی باتیں سنانے کو کافی کچھ تھا اور شاید کئی زمانوں سے وہ بولا بھی نہیں تھا۔ کھڑے کھڑے تھک گئے تو اس نے پگ کھولی ریت پر بچھائی اور ہم وہیں بیٹھ گئے۔
بابا جی نے بتایا کہ انہوں نے جھنگ میں 20 سال چناب میں کشتی چلائی۔ کشتی بناتے بھی خود تھے۔ جھنگ میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ پھیلی تو شرپسندوں نے ان کا گھر جلا دیا جس میں وارث ملاح کی بیٹی اور بیٹا جل کے مر گئے۔ بیوی پہلے ہی مر چکی تھی۔ بابا جی نے باقی تین بیٹیوں کے ساتھ جھنگ کو چھوڑا اور سیالکوٹ آ گئے۔ اب وہ چناب میں ہی کشتی چلاتا ہے اور دن میں چار پانچ سو کما کر اپنی بیٹیوں کو کھلاتا ہے۔
روزمرہ زندگی کے دکھ سکھ، بیٹیوں کی پریشانی، روزگار کے نامساعد حالات اور دریائے چناب پر بات کرتے کرتے گھنٹہ بیت گیا۔ اس گھنٹے میں بابا جی کی آنکھیں کئی بار نم ہوئیں اور کئی بار ہنسیں۔ میں سگریٹ پیتا رہا اور سوچتا رہا کہ دکھ ہی انسان کا سانجھا رشتہ ہیں۔ یہ نہ ہوں تو کون کسی کی سنے بھی۔ وارث ملاح جیسے کئی کروڑ لوگ اس معاشرے میں جہنم کاٹ رہے ہیں، ایسے لوگوں کا آخرت میں خدا بھی کیا حساب لے گا۔
مرالہ کو جاتے ایک سڑک چناب سے نکلتی نہر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ نہر کی اس پٹری کے اطراف آموں کے درخت ہیں جو اتنے گھنے ہیں کہ ان کا سایہ گرمیوں میں بھی اس راہگزر کو ٹھنڈا رکھتا ہے۔ اطراف میں پیلے، نیلے ارٖغوانی جنگلی پھولوں کی بہتات ہے۔ یہ ایک کچی راہ مجھے گرمیوں میں اپنے طرف کھینچتی ہے۔ اس راہ پر چلتے آموں کے درختوں سے آنے والی کوئل کی کو کو سننا ایک نشہ ہے۔ میں اس نشے کا عادی ہو چکا ہوں۔ اس سے خوبصورت جگہ میرے شہر کے قریب شاید ہی کوئی اور ہو جہاں سکون ٹھہرا ہوا ملتا ہے۔ تتلیوں کے جھنڈ گرمیوں میں جنگلی پھولوں پر منڈلاتے پھرتے ہیں۔
شہر سے باہر نکل کر دیہاتوں کی طرف مرالہ کے مقام پر پھیلا یہ سارا علاقہ خوبصورت ہے۔ اگر موسم ساتھ دے تو دل کرنے لگتا ہے وہیں کھیتوں میں انسان کرسی لگا کر بیٹھ رہے اور کافی پیتا جائے۔ ایک زمانے میں یہیں کہیں جھگیوں والے آباد ہو گئے تھے، جن میں سے ایک جھگی میری توجہ کا مرکز بنی رہی۔ اس میں ایک الگ سی کشش تھی۔ چناب کے کنارے یوں تو کئی جھگیاں آباد ہو گئیں تھیں لیکن وه ایک جھگی سب سے الگ ذرا فاصلے پر سڑک کے ساتھ ایسے بسی تھی جیسے باقی برادری نے اسے علاقہ بدر کر دیا ہو۔
صبح صبح مرالہ کو جاتے میں نے اپنی لال یاماہا روک کر نظر ڈالی۔ یه دھند کے دن تھے۔ 8 بجنے کو آئے تھے لیکن سورج کو دھند نے ڈھانپ رکھا تھا۔ جھگی کا ایک پرده لپیٹ کر اوپر کی طرف تہہ کیا ہوا تھا اور ایک پرده گرا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی غریب بیوه نے نقاب کیا ہو۔ آدھ کھلے کپڑے کے دروازے سے اندر رکھی دو چارپائیاں بھی آدھی آدھی نظر آ رہی تھیں۔ ایک پانی کا کولر بھی پڑا تھا۔ جھگی کے باہر مٹی کے بنے چولہے کے گرد مرد عورت اور ان کے تین بچے گول دائرے میں بیٹھے تھے۔
عورت ایک چولھے پر روٹی پکاتی اور دوسرے چولہے پر دیگچی میں کچھ ابل رہا تھا۔ غالباً چائے ہوگی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وه نیچے جھک کر چولہے پر پھونک مارتی تو دھواں اور چائے کی بھاپ مکس ہو کر اوپر اٹھتے۔ مرد اور تین بچے ٹوٹے پھوٹے موڑھوں پر بیٹھے تھے۔ بچے چھوٹے تھے اور کانوں والی گرم ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے۔ مرد نے گندی سی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ چولہے کے گرد بیٹھا خاندان کبھی آگ سے ہاتھ سینکتا تو کبھی ہاتھ پھر بغلوں میں دبا لیتا۔
شاید ان کی زندگی کا یہ روز کا معمول تھا اس لیے وه اس بات سے بے پرواه تھے کہ سڑک سے گزرتے لوگ انہیں دیکھتے ہوں گے۔ سبھی اپنی حال میں مست تھے۔ مرد تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہنستا تو بچے اور عورت بھی ہنسنے لگتے۔ ان کی آوازیں مجھ تک نہیں آ رہی تھیں۔ شاید یہ ناشتے کی ٹیبل والی گپ شپ تھی جو مٹی کے بنے چولہے کے گرد ہو رہی تھی۔ کچھ دیر میں نے اس خوش باش خاندان کو دیکھا اور پھر بائیک چلا دی۔ جھگی کے اوپر، اردگرد، آرپار، سڑک پر، آسمان پر، ہر جگہ دھند چھائی تھی۔
بارش تین دن سے موسلادھار برس رہی تھی۔ میں چھٹی کے دن گھر بیٹھے گھبرا رہا تھا تو بارش میں گھومنے بائیک پر نکل پڑا۔ مرالہ کے راستے میں جھگی کے سامنے لال یاماہا رکی۔ جھگی کا پردہ جوں کا توں تھا۔ آدھا کھلا آدھا گرا۔ عورت اور مرد نظر نہیں آ رہے تھے۔ جھگی کی چھت پر نارنجی رنگ کا پلاسٹک پھیلا ہوا تھا، غالباً بارش سے بچاؤ کے لیے۔ جھگی کے آدھ کھلے دروازے پر دو بچے اداس کھڑے تھے۔ جھگی کے باہر بنا مٹی کا چولہا آدھا ٹوٹ چکا تھا۔ اس ڈھے چکے چولہے کی مٹی کھر کھر کر بارش کے پانی کے ساتھ ایک نالی میں بہتی چلی جا رہی تھی۔ یہ عارضی نالی تھی۔ پانی اپنا راسته خود بنا لیتا ہے۔ تین دن سے بارشیں لگیں تھیں۔ چولہا دیکھ کر خیال آیا کہ اس خاندان نے کھانا کیسے پکایا ہوگا۔ پکایا ہوگا بھی یا نہیں۔ جھگی کے اوپر، ارد گرد، آر پار، سڑک پر، آسمان پر ہر جگہ بارش ہی بارش تھی۔
مارچ کی دھوپ کھِلی تھی۔ ہلکی سنہری دھوپ۔ سات بجے صبح مرالہ کو جاتے جاتے لال یاماہا رکی تو دیکھا کہ جھگی کے دونوں پردے گرے ہوئے تھے۔ باہر دو ڈنڈوں کو کھڑا کر کے بیچ میں ایک تار لگا دی گئی تھی جس پر رنگ برنگی کپڑے سوکھنے کے لیے پڑے تھے۔ چولہا نیا بن چکا تھا۔ مٹی کی لپائی بتاتی تھی کہ مرمت ہوئے زیاده عرصہ نہیں گزرا۔ نہ مرد عورت دِکھ رہے تھے نہ بچے۔ مکمل خاموشی تھی۔ شاید آج سب ابھی تک اندر سو رہے تھے۔ جھگی کے اطرف میں بڑے بڑے تنکے کھڑے تھے جن پر سفید روئی جیسے نازک لمبے پھول کی مانند ریشے تھے۔ ان سے گھروں میں صفائی کے کام آنے والی پھول جھاڑو بنتی ہے۔ ان لمبے تنکوں پر چھوٹی چھوٹی چڑیاں بیٹھی تھیں جن کے بوجھ سے تنکے جھکے ہوئے لگتے۔ جب کوئی چڑیا پھڑپھڑاتی تو تنکے جھولنے لگتے۔ جھگی کے اوپر، ارد گرد، آرپار، سڑک پر اور آسمان پر ہر جگہ دھوپ ہی دھوپ تھی۔
اپریل میں پھول کھِلے تو مرالہ کو جاتے دیکھا کہ جگہ خالی پڑی تھی۔ کچھ تنکے ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ ٹوٹا ہوا مٹی کا چولہا تھا۔ باقی جھگی بستی جو ذرا فاصلے پر آباد تھی وه بھی خالی تھی۔ کوئی بنده بشر نہ دکھتا تھا۔ اردگرد سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ سرکار نے جھگی والوں سے زمین واگزار کروا لی ہے۔ خانه بدوشوں کو پھر سے ہجرت کرنی پڑی۔ جپسی اپنے مرد اور بچوں سمیت کسی اور جگه چولہا پھونکنے چلے گئی تھی۔ ساری جگہ پر، ارد گرد، سڑک پر، آسمان پر ویرانی ہی ویرانی تھی۔ بائیک چلی تو سوار کا ایک آنسو ہوا کے زور سے پلکوں سے ٹوٹا اور اڑ گیا۔
اس دن دریا کے اوپر بھی تیز ہوا بہہ رہی تھی۔ شمال کا سفر ہو یا اپنے ہی شہر سے باہر تک کا، ہوا ہر جگہ ہمسفر رہتی ہے، ازل سے ہے، ابد تک رہے گی۔ کہتے ہیں کہ عالمِ بالا میں ایک بہت پھیلاؤ والا گھنا درخت ہے جس پر ہمیشہ ایک ہی وقت میں خزاں اور بہار چھائی رہتی ہے، جب تیز ہوا کے جھونکے آتے ہیں تو کچھ پیلی مرجھائی پتیاں ٹوٹ کر گر جاتی ہیں اور اسی طرح نیچے دنیا میں، جہاں فنا کو قیام ہے، فانی انسان مرتے رہتے ہیں۔ مجھے تو ہوا کی آواز میں موت کی ندا سنائی دیتی ہے جو عالمِ بالا میں پکار پکار کر ہمارے ناموں کے پتے گراتی رہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام جدائیوں، محبتوں اور شکستوں میں ہوا کا ہاتھ ہے۔ ہوا کا سدا بول بالا رہے۔
ہوا ہی خوشبوؤں اور سروں کو پھیلاتی اور مٹاتی ہے۔ ہوا میں ہی نوحے اور زخم خوردگی کی ایسی کیفیت ہے جو تمام انسانی دکھوں سے ماورا ہے۔ پورے چاند کی رات میں جب چاند بھی افق پر گرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ہوا بادلوں کے ٹکڑے دھکیلتی پھرتی، چاند کو ڈھانپتی کھولتی رہتی ہے۔ اندھیرے اجالے کے کھیل کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ ہے۔ شہر سے دور، آبادیوں، بستیوں سے ہٹ کر پورے چاند کی رات میں بہتی ہوا کے شور سن کر اور اس کے کھیل کو دیکھ کر انسان پر کئی گہرے راز آشکار ہوتے ہیں۔ نہ تم حقیقت ہو نہ میں۔ حقیقت صرف ہوا ہے جو ابتداء سے سفر میں ہے اور انتہا تک جس کا جھونکا سفر کرتا رہے گا۔
چناب کے پانیوں کے کنارے جہاں دریا کو سب دھنیں ہوا لکھ کے دیتی ہے وہاں میری سوچ کی قندیلیں بھی جلاتی بجھاتی رہتی ہے۔ مرالہ کے مقام پر چناب اور ہوا کا کوئی مقابلہ نہیں، دل پتے کی صورت کانپنے لگتا ہے اور پھر اڑ جاتا ہے۔ منیر نیازی مرحوم کے دو شعر یاد آ گئے
سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے نہ دیکھو کہیں ہَوا ہی نہ ہو
نہ جا کہ اس سے پڑے دشتِ مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستہ ہی نہ ہو
یہ سید مہدی بخاری کے سفرناموں کی سیریز میں بارہواں مضمون ہے۔ گذشتہ حصے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
لکھاری یونیورسٹی آف لاہور کے کریئٹیو آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔
ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں: سید مہدی بخاری فوٹوگرافی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔