ایمن آباد توجہ کا طلبگار ہے
گوجرانوالہ کی صنعتی اور پیداواری زندگی سے الگ، جی ٹی روڈ کے شور شرابے سے ہٹ کر، ایمن آباد کا تاریخی قصبہ واقع ہے۔ موڑ ایمن آباد سے نکلنے والی چھوٹی سڑک زرخیز زمینوں اور لہلہاتی فصلوں کے بیچوں بیچ گزرتی ہے اور کو ئی پانچ منٹ میں ہم ایمن آباد پہنچ جاتے ہیں۔
پنجاب کے اس حصے میں خاص تاریخی اہمیت کا حامل یہ قصبہ کئی انمول مسلم، ہندو اور سکھ تعمیرات کا وارث ہے، خاص طور پر دیوان خاندان کی عالیشان حویلیاں، جن کے اب محض آثار ہی باقی رہ گئے ہیں۔ مگر یہ آثار بھی گزرے وقتوں کی شان و شوکت کی تفصیل بیان کیے دیتے ہیں۔ ایمن آباد کے اس ہندو خاندان نے ریاست جموں کشمیر پر قریب ایک صدی حکومت کی، مگر 1947 کے تاریخی واقعات میں یہ لوگ ہجرت کر گئے۔ پیچھے رہ جانے والے تعمیرات کے نمونے اپنے مکینوں کی جدائی بہت عرصہ برداشت نہ کر سکے، حویلیاں کھنڈرات میں بدلتی گئیں۔ اب ان کھنڈرات کے بھی نشان ہی باقی رہ گئے ہیں۔
چار چار منزلہ عمارتوں سے نکلنے والی لاکھوں اینٹیں اردگرد بننے والے درجنوں نئے گھروں کی تعمیر میں کام آئیں اور کشمیر کی نایاب لکڑی سے بنے دروازے اور کھڑکیاں لاہور، گوجرانوالہ میں دولت مند شوقین لوگوں کے ہاں فروخت ہوئیں۔ یوں تو اس شہر میں دیوانوں کا پورا ایک محلہ آباد تھا مگر ساٹھ برس گزرنے کے بعد ایک تین چار منزلہ عمارت کا سامنے کا حصہ ہی باقی رہ گیا ہے۔ پیچھے کی عمارتیں اس عرصے میں ضرورتوں اور مکینوں میں اضافے کے ساتھ بتدریج مسمار کی گئیں اور انہی اینٹوں کو کام میں لا کر نئے کمرے تعمیر کیے گئے۔
چند دیواریں جو ابھی گرنے سے بچ گئی ہیں، دیواریں نقاشی کے خوبصورت نمونوں کی نشانیاں یوں لیے کھڑی ہیں، بقول غالب کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے۔ ہندو مذہبی کتھاؤں کے مضامین پر مبنی یہ دیواری نقاشی محفوظ کر لینے کے لائق ہے تاکہ کوئی قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں آباد ہندو طرز معاشرت کو دیکھنا اور سمجھنا چاہے تو یہ مٹتے ہوئے نقوش اور گرتی ہوئی دیواریں اس کی مدد کر سکیں۔