پاکستان

فوج کا دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے پر زور

وفاقی و صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان کے اطلاق کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں اپنا حصہ ڈالیں، عسکری قیادت

اسلام آباد: عسکری قیادت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت خصوصی عدالتوں کو فعال بنانے اور دہشتگردوں کی مالی فنڈنگ روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں اپنا حصہ ڈالیں.

وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں 5 گھنٹوں پر محیط نیشنل اپیکس کمیٹی کے دو سیشنز پر مشتمل اجلاس میں عسکری قیادت نے گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم پر زور دیا کہ وہ مدارس، خصوصاً نفرت انگیز تقاریر کرنے والے مدارس اور فرقہ واریت پھیلانے والے مذہبی اسکالرز کے خلاف سخت اقدامات کریں۔

واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ گذشتہ برس دسمبر میں نافذ کیے جانے والے نیشنل ایکشن پلان کے کسی اجلاس میں سول اور عسکری قیادت وفاقی سطح پر لائحہ عمل کا جائزہ لینے کے لیے اکٹھی ہوئی۔

اجلاس میں دہشت گردوں کی مالی معاونت، مدارس میں اصلاحات، غیر قانونی اسلحے اور مذہبی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں پر ظلم و ستم کا جائزہ لیا گیا۔

شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے باعث دہشت گردی کے واقعات میں کمی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کامیابی سے جاری ہے، لیکن ابھی بھی کچھ پہلو ایسے ہیں جہاں کارروائی کی ضرورت ہے اور وفاقی دارالحکومت میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس کا مقصد ان ہی پہلوؤں کا جائزہ لینا تھا۔

اجلاس میں شریک ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ (پی پی اے) 2014 کے تحت خصوصی عدالتوں کے احیاء کے لیے وزرائے اعلیٰ پر فرقہ وارانہ عناصر کے خلاف سخت کارروائی پر زور دیا گیا، جو سنجیدہ اور وسیع پیمانے پر تھے۔

ذرائع کے مطابق ایک اعلیٰ سطحی افسر نے اجلاس کے دوران کہا کہ ابھی بھی نیشنل ایکشن پلان کے پوری طرح اطلاق میں کچھ کسر باقی ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اعلیٰ سطحی افسر نے خبردار کیا کہ فوجی آپریشن کی وجہ سے حاصل ہونے والے فوائد رائیگاں چلے جائیں گے اگر نیشنل ایکشن پلان کے عملدرآمد کو فوری طور پر بہتر نہ بنایا گیا اور دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خاتمے پر زور نہ دیا گیا۔

ذرائع نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حوالے سے بتایا کہ ملک کو صرف دہشت گردوں سے نجات دلانا کافی نہیں ہوگا بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردوں کی مالی معاونت اور سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کرنی ہوگی۔

یاد رہے کہ آرمی چیف نے یوم دفاع کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاک فوج اور سیکیورٹی کے تمام اداروں نے ریاست کی بالادستی حاصل کرلی ہے، ان کا کہنا تھا: "میں اس عزم کا اعادہ کرتا ہوں کہ دہشت گردوں کے مددگار اور سہولت کاروں کو بھی کیفر کردار تک پہنچاکر دم لیں گے"۔

ذرائع کے مطابق یہ اس بات کی طرف ایک اشارہ تھا کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف جاری حالیہ کارروائیوں کا دائرہ کار مزید وسیع کرنا چاہتی ہے۔

اجلاس میں شریک ایک اور رکن نے بتایا کہ دوران اجلاس پی پی اے 2014 کے تحت قائم کی گئی خصوصی عدالتوں کا بھی اس حوالے سے جائزہ لیا گیا کہ وہ دہشت گردی سے متعلق کیسز کی سماعت میں صحیح سمت میں کام کر رہی ہیں یا نہیں، تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس اس سلسلے میں کچھ تسلی بخش جواب نہیں تھا۔

وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید، جو وزارت قانون کا قلمدان بھی سنبھالے ہوئے ہیں جبکہ وزیراعظم کے قانونی مشیر اشتر اوصاف اس موقع پر موجود نہیں تھے۔

تاہم اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ صوبائی حکومتوں نے پی پی اے کے تحت عدالتیں قائم نہیں کیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ "ہم نے مزید خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے"۔

مزید پڑھیں:'ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو کچل دیا جائے گا'

دوسری جانب ایک سینیئر حکومتی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ فوجی عدالتیں، متنازع 21 ویں ترمیم کے تحت بنائی گئیں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کا خیال تھا کہ خصوصی عدالتیں پی پی اے کے تحت بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اجلاس کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ فوجی عدالتوں کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نیشنل ایکشن پلان کے موثر اطلاق کے لیے پی پی اے کا آپشن بھی استعمال کرنا چاہیے۔

اجلاس کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے صوبائی وزرائے اعلیٰ کو فرقہ واریت پھیلانے والے مدارس اور علمائے کرام کے خلاف سخت کارروائی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے قانون سازی پر بھی غور کیا گیا اور تجویز دی گئی کہ حکومت موذن اور قرآن کے اساتذہ کو خود تعینات کرے۔

اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، چئیرمین نادرا، چیف سیکرٹریز، نیکٹا کے کوآرڈی نیٹر ، ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) اور دیگر اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے۔