انور مقصود سے معذرت کے ساتھ!
کوک اسٹوڈیو کے حالیہ سیزن میں 'ساڈا چڑیاں دا چمبا اے" گانے کے دوران انور مقصود کی جانب سے پڑھے گئے خط میں جتنی بے چارگی، اداسی، اور مایوسی سنائی دیتی ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی ایسی خاتون کی تحریر ہے جو اپنی ازدواجی زندگی میں انتہائی ناخوش ہیں، اور دن بھر میکے کی یاد میں ملول رہتی ہیں.
اس کے برعکس حقیقی زندگی اس سے کافی مختلف ہوتی ہے اس لیے مذکورہ خط کچھ اس انداز میں بھی لکھا جا سکتا تھا.
پیارے بابا،
آپ کا خط ملا۔ صبح کا وقت تھا سو جلدی جلدی پڑھا، کیونکہ ناشتہ بنانا تھا اور سمیّ کو فیڈر بھی دینا تھا۔ سوچا تو یہ تھا کہ ذرا فرصت ملتے ہی جواب لکھوں گی مگر گھر کے کاموں اور دیگر مصروفیات میں ایسی الجھی کہ اس بار بھی دیر ہو گئی۔ آپ کی شکایت ٹھیک ہے کہ میں ہر بار جواب دیر سے دیتی ہوں مگر بابا، اب وہ وقت تو نہیں جب میں سارا دنِ کتابوں میں منہ چھپائے پڑی رہتی تھی اور اماّں سے ڈانٹ کھاتی تھی۔
آپ تو جانتے ہیں کہ گھر سنبھالنا، بچوں کا خیال رکھنا، ملنا ملانا، آنا جانا، یہ سب کام اپنے گھر میں مجھے ہی کرنے ہوتے ہیں۔ یہ سب بڑی خوبصورت مصروفیات ہیں بابا اور ان میں وقت کس تیزی سے گزرتا ہے، احساس ہی نہیں ہوتا۔
بابا، کل یہاں بہت بارش ہوئی۔ میں نے پکوڑے اور سموسے بنائے اور سب نے ہی خوب تعریف کی۔ اب کی بار آؤں گی تو آپ کو اور امّاں کو بھی کھلاؤں گی تاکہ اب امّاں مجھے خراب کھانا بنانے پر ڈانٹ نہ سکیں۔ یہاں بارش میں بہت مزا آتا ہے۔ علی نے میری ضد پر باہر لان میں جھولا بھی ڈلوا دیا ہے۔ بارش میں اکثر ہم وہاں جھولا جھولتے ہیں اور خوب باتیں کرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہے بھائی بارش میں میرے ورانڈے میں بیٹھنے پر کتنا اعتراض کرتا تھا کہ اس کے دوستوں کو وہاں سے گزر کر اندر کمرے میں جانا ہوتا تھا۔
آپ نے امّاں کی ہری چادر کے بارے میں پوچھا ہے۔ ان سے کہیے گا کہ وہ میرے ہی پاس ہے، مگر نہ جانے سامان میں کہاں رکھ کر بھول گئی ہوں۔ اگلی بار آؤں گی تو لیتی آؤں گی۔ بھائی کا قلم ساتھ لائی تھی، ببلو نے اس میں پانی بھر دیا ہے اب وہ کسی کام کا نہیں رہا۔ آپ کی عینک کے شیشے جڑوانے ہیں، کسی دن بازار جاؤں گی تو لگوا دوں گی۔
بابا، کل میں نے ایک خواب دیکھا۔ میں، آپ، بھائی، اور امّاں آنگن میں بیٹھے کسی بات پر ہنس رہے تھے۔ سب سے اونچا قہقہہ میرا تھا جس پر امّاں ہمیشہ ڈانٹتی تھیں۔ بابا، آج بھی میں اتنا ہی اونچا قہقہہ لگاتی ہوں اور ببلو اور سمیّ میری ہنسی میں میرے ساتھ ہوتے ہیں۔
آپ کو یاد ہے میں امّاں سے پوچھا کرتی تھی کہ وہ اپنا گھر بار، ماں باپ چھوڑ کر آپ کے ساتھ کیسے رہتی ہیں۔ انہیں ان سب لوگوں کی یاد کیوں نہیں آتی؟ آج جب میری شادی ہو گئی ہے، اور بچّے بھی، تو مجھے اچھی طرح احساس ہو گیا ہے کہ اپنا گھر، شوہر، اور بچے کیسے دلِ میں سب سے زیادہ جگہ حاصل کر لیتے ہیں۔ آپ نے پوچھا ہے کہ میں اب کب آؤں گی۔ بابا! بار بار اتنی دور آنا بہت مشکل ہے۔ ابھی چار ماہ پہلے ہی تو آئی تھی، اب تو عید پر ہی آؤں گی، اگلے سال۔ اپنی اور بچوں کی تصویریں بھیج رہی ہوں۔ اپنا اور امّاں کا خیال رکھیے گا۔
آپ کی لاڈلی
میرے خیال میں میکے کی یاد آنا ایک فطری کیفیت ہے اور یہ خط محض حقیقی زندگی کی ایک معمولی سی تصویر کشی ہے۔
شاذیہ کاظمی ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ٹی وی ڈرامے اور ریڈیو پروگرامز بھی تحریر کیے ہیں۔ انِہیں دو PAS ایوارڈز بھی ملِ چکے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: shaziya@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔