پاکستان

موسمیاتی تغیرات: تھر کا لائیو اسٹاک شدید خطرے میں

موسمیاتی تبدیلیوں سے تھر زیادہ متاثر ہو رہا ہے جس کی وجہ سے لائیو اسٹاک کی ہلاکتیں اور انسانی ہجرت دیکھنے میں آ رہی ہے۔

مٹھی: تھرپارکر کے صدر مقام مٹھی سے تعلق رکھنے والے بشیر سمیجو کو قحط اور مختلف بیماریوں کی وجہ سے گزشتہ سال اپنی 200 بھیڑوں کی ہلاکت جیسے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

مگر یہ کہانی صرف بشیر سمجیھو کی نہیں بلکہ تھر میں لائیو اسٹاک کے شعبے منسلک تقریباً ہر شخص کی ہے جسے گزشتہ تین سالوں سے جاری قحط نے شدید متاثر کیا ہے۔

موسمیاتی تغیرات اس وقت دنیا بھر میں زیربحث موضوع ہے اور اب اس کے اثرات پاکستان بالخصوص تھر کے علاقے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

صوبہ سندھ کے پسماندہ ضلع تھر میں بسنے والے افراد کے لیے لائیواسٹاک آمدنی کا واحد ذریعہ ہے مگر تیزی سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں یا موسمیاتی تغیرات اور تین سال سے جاری خشک سالی نے وہاں بسنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔

تقریباً 19 ہزار 623 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے صحرائے تھر کی آبادی تقریباً سولہ لاکھ نفوس میں مشتمل ہے جب کہ یہاں موجود لائیو اسٹاک کی تعداد 60 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

تھر میں زراعت کا انحصار مکمل طور پر بارش پر ہے مگر اس سال ہونے والی بارش بھی گزشتہ تین سالوں سے جاری قحط کو ختم نہیں کر سکی جب کہ ہر سال سبز رنگ کی چادر اوڑنے والا تھر اس بارش ہونے کے باوجود بنجر نظر آتا ہے۔

بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے تھر میں کئی امراض پھوٹے جن کی وجہ سے متعدد افراد اور جانور ہلاک ہوئے اور اس وقت وہاں لائیو اسٹاک پر انحصار کرنے والے لوگ خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

مٹھی سے تقریباً 35 کلومیٹر دور گاؤں ہریار کے کھیت سنگھ بھی اپنے سیکڑوں جانوروں کی ہلاکت پر پریشان ہیں۔

کھیت سنگھ کا گاؤں ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے ایک عمدہ مثال ہے مگر کھیت سنگھ کی پریشانی مسلسل خشک سالی اور جانوروں کی ہلاکت ہے۔

کھیت سنگھ نے بتایا کہ کچھ سال قبل تک ان کے پاس موجود گائے، بھیڑ اور بکریوں کی تعداد 300 سے 400 کے درمیان ہوا کرتی تھی مگر اس کے 80 فیصد مویشی قحط سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

گاؤں کی اوطاق میں بیٹھے کھیت سنگھ نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس علاقے کے کئی دیگر افراد کے بھی بیشتر مویشی ہلاک ہو گئے ہیں۔

ہر سال بارش کے بعد سیاحوں کی بڑی تعداد وہاں کھچی چلی جاتی ہے مگر اس سال 350 ملی میٹر ہونے والے بارش بھی ریت کی پیاس نہ بجھا سکی۔

کھیت سنگھ کا کہنا تھا کہ گزشتہ 50 برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک اچھی بارش کے بعد بھی یہاں گھاس اور باجرے کی فصل نہیں اُگی

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق یہ تمام تر صورتحال موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے اور اگر اس حوالے سے فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ برسوں میں صورتحال مزید سنگین ہو جائے گی۔

کھیت سنگھ کے مطابق گاؤں میں آنے والے اکثر لوگ مسلسل خشک سالی اور جانوروں کی ہلاکت کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیتے ہیں مگر وہ صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے چارا اور پانی نہیں ہے جس کی وجہ سے جانور ہلاک ہو رہے ہیں۔

کھیت سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر سال میں صرف دو یا تین بارشیں ہو جائیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

کھیت سنگھ کہتے ہیں گاؤں کے کئی لوگ قحط کی وجہ سے نقل مکانی کر گئے ہیں مگر وہ ٹھاکر برادری (ٹھکر) سے ہے اور ان کی روایت ہے کہ وہ کبھی نقل مکانی نہیں کرتے۔

اسی گاؤں کے ایک نوجوان جگا ٹھکر کو بھی اسی پریشانی کا سامنا ہے۔ جگا کا کہنا ہے کہ ان کے بیشتر مویشی خشک سالی کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں اور کچھ کو انہوں نے گزر بسر کے لیے بیچ دیا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سینئر منیجر علی دہلوی کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں صحرائی ماحولیاتی نظام کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں اور سخت موسم وہاں بسنے والوں کی زندگی کو مزید مشکل بنا رہے ہیں۔

علی دہلوی کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ تھر متاثر ہو رہا ہے جس کی وجہ سے لائیو اسٹاک کی ہلاکتیں اور بڑے پیمانے پر انسانی ہجرت دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ریگستانی علاقے میں اضافے کے حوالے سے علی دہلوی کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ مسلسل طویل ہوتی خشک سالی ہے۔ جب کہ اس دوران ریگستانی علاقے کو پانی فراہم کرنے والی زمین کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے وہاں پانی کی کا کم ہونا اور مسلسل جنگلات کا خاتمہ بھی اس کی اہم وجوہات ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے، چھوٹے آر او پلانٹس کی تنصیب، سولر پمپس اور خشک سالی کے دوران بھی نشونما پانے والے درختوں کو اُگانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں ماحولیات کے تحفظ پر کام کرنے والے ادارے اسکوپ کے عہدیدار تنویر عارف کا کہنا ہے کہ تھر میں خشک سالی کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں اور اسی کی وجہ سے وہاں لائیو اسٹاک کا شعبہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔

تنویر عارف کا کہنا ہے کہ تھر میں اگنے والے 70 فیصد درخت جانوروں کے لیے نقصان دہ ہیں یا ان کو مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

تنویر عارف کے مطابق ہمیں یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ تھر کی زمین زرعی ہے یا غیر زرعی اور یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد ہمیں اس حوالے سے مناسب منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

تنویر عارف کا کہنا ہے کہ یہ لائیو اسٹاک رکھنے والے لوگوں کو تربیت دے کر بھی صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

تنویر عارف کا کہنا ہے کہ تھر صرف کراچی کی ضرورت کا 45 فیصد لائیو اسٹاک پیدا کرتا ہے تاہم اگر جانوروں کی ہلاکتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ کچھ سالوں میں قربانی کے لیے جانور تقریباً ناپید ہو جائیں گے۔