نقطہ نظر

کراچی پریس کلب میں 24 برس بعد مشاعرہ

چوتھائی صدی کے وقفے سے کراچی پریس کلب میں ہونے والے مشاعرے کا آنکھوں دیکھا حال اور چند تاریخی واقعات.

کئی برس پہلے کی بات ہے کہ پریس کلب میں مشاعرہ تھا۔ نام ور شاعر منیر نیازی اس وقت حیات تھے۔ شام کے بعد وہ اپنے مخصوص انداز میں کلب پہنچے۔ گیٹ پر پریس کلب کے ملازم قیوم بابا موجود تھے۔ نیازی صاحب نے انہیں دیکھا اور بڑی چاہت سے ان کی جانب لپکے اور بولے ”کیسے ہو محمود شام؟“ قیوم بابا جواباً بولے میں محمود شام نہیں قیوم ہوں۔

منیر نیازی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ”محمود شام تم مجھ سے بچنا چاہتے ہو؟“ قیوم بابا حیران و پریشان ہو کر بولے ”سر میں محمود شام نہیں قیوم ہوں۔ یہاں کام کرتا ہوں سر۔“ منیر نیازی صاحب پھر بولے ”نہیں تم میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو محمود شام۔“ اتنی دیر میں کراچی پریس کلب کے سابق صدر اور سیکریٹری عبدالحمید چھاپرا وہاں پہنچے۔ قیوم بابا نےانہیں تمام صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ جس کے بعد چھاپرا صاحب منیر نیازی صاحب کو سمجھا بجھا کر مشاعرے میں لے گئے۔

یہاں ہم نے یہ واقعہ بیان کرنا اس لیے ضروری سمجھا کہ کراچی پریس کلب میں 24 سال کے بعد کسی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا اور ہمیں فوراً یہ واقعہ یاد آگیا تو ہم نے سوچا کہ اپنے قارئین کی نذر کریں۔ اردو زبان میں دو محاورے، ایک میان میں دو تلواریں اور ایک جنگل میں دو شیر خاصے مشہور ہیں۔ ان کا مطلب یہی ہے کہ ایک جگہ دو نابغہ روزگار شخصیات کا یک جا رہنا ممکن نہیں۔ لیکن کراچی پریس کلب کی موجودہ باڈی نے یہ محاورے غلط ثابت کر دیے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں؟ اس کا جواب بالکل آسان ہے۔ غالباً پریس کلب کی 57 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کلب کے صدر فاضل جمیلی اور سیکریٹری اے ایچ خانزادہ دونوں ہی شاعر ہیں۔ دو شاعروں کا مرکزی عہدوں پر فائز ہونا ایک کمال ہے۔ ان دونوں کی کاوشوں سے کراچی پریس کلب میں ایک ”کُل پاکستان مشاعرہ“ کا انعقاد کیا گیا۔ یہ مشاعرہ کلب کے بیک یارڈ میں 13 اگست 2015 کو منعقد کیا گیا۔

مشاعرے کی سب سے نمایاں خصوصیت شاعروں کی تعداد تھی جو لگ بھگ 20 کے قریب تھی۔ مشاعرے کا احوال بعد میں لکھیں گے مگر پہلے شاعروں کی کراچی پریس کلب سے قربت اور چند ایسے واقعات کا ذکر کرنا ضروری ہے جو کلب میں پیش آئے۔ ضیاء کا مارشل لاء پاکستان کی تاریخ کا منفرد مارشل لاء تھا۔ اس مارشل لاء میں صحافیوں کو ان کے حقوق کے حصول کی پاداش میں کوڑے بھی لگائے گئے۔ حبیب جالب صاحب پریس کلب کی یادوں کے حوالے سے اپنی سوانح عمری ”جالب بیتی“ کے صفحہ نمبر 175 پر یوں ذکر کرتے ہیں:

”کراچی والوں نے ایک مشاعرہ رکھا جو بیگم نصرت بھٹو کی صدارت میں تھا۔ وہاں یہ فضا تھی کہ جب تک عبدالحمید چھاپرا پریس کلب کے صدر رہے، یہ جگہ اپوزیشن کی پناہ گاہ اور جلسہ گاہ بنی رہی۔ مشاعرہ تین شاعروں پر مشتمل تھا۔ احمد فراز، انعام درانی اور میرے اعزاز میں تھا۔ وہ دو تو دو دو غزلیں سنا کر بیٹھ گئے۔ مجھے وہاں ڈیڑھ گھنٹے تک مسلسل اپنا کلام سنانا پڑا۔ میری صحت تو خاصی بگڑ چکی تھی۔ جب مشاعرہ ختم ہوا اور میں سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا کہ نقاہت کے باعث میں گرنے کو ہی تھا کہ لوگوں نے مجھے سنبھال لیا۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ہمارے پرانے دوست تھے۔ ان کے ساتھ ان کے کالج کے جلسوں میں اپنا کلام سنایا کرتا تھا۔ طالب علم مجھے پسند کرتے تھے اور میں ان کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ وہ میرے بہت ہی پرانے واقف ہیں۔ کراچی کے بہت سارے ڈاکٹرز میری سر پرستی کرتے ہیں۔ میرا علاج معالجہ ہمیشہ ان کے ذمے رہا ہے۔ میں ڈاکٹر ادیب کے سول ہسپتال میں داخل ہوگیا۔انہوں نے ایک صاف ستھرے وارڈ میں رکھا۔ وہ میرا اتنا خیال رکھتے تھے کہ میرے لیے کھانا اپنے گھر سے منگواتے تھے۔

ایک شاعر کو شعر سنانے کا جو عارضہ ہوتا ہے اس کا بھی انہوں نے علاج یہ کیا کہ اپنی اسٹوڈنٹس، طالبات اور جونیئر ڈاکٹرز پر مشتمل 20 رکنی ٹیم کو دوپہر کو بلا لیا کرتے تھے۔ وہ سب مجھ سے نظمیں سنتے تھے۔ میرے ذوق کی بھی تسکین ہوجاتی تھی اور ان سے گپ شپ بھی ہو جاتی تھی۔

کراچی بدر: جس دن میں اسپتال میں داخل ہوا تھا اسی شام پولیس مجھے پکڑنے آگئی تھی۔ انہوں نے مجھے گورنر کے آرڈر کے تحت کراچی بدر کرنا تھا۔ پولیس نے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی سے بات کی کہ ”ہم حبیب جالب کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں“۔ ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر پولیس ہسپتال میں داخل نہیں ہو سکتی۔ ڈاکٹر ادیب نے ان سے کہا کہ ”میں تو مریض کی خراب حالت کی وجہ سے نہیں چاہوں گا کہ آپ ان کو اٹھا کر لے جائیں۔ ٹھہریے میں پہلے مریض سے پوچھتا ہوں۔“

وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ گورنمنٹ کے خرچ پر لاہور جانا چاہتے ہیں تو باہر پولیس کھڑی ہے۔ اگر یہاں رہنا چاہتے ہیں تو میں آپ کی خدمت کے لیے ہر طرح سے حاضر ہوں۔ میں نے ان سے کہا، آپ میرا علاج کریں، میں یہیں رہوں گا۔ وہ پولیس کے پاس گئے اورانہیں کہا کہ مریض تو move بھی نہیں کر سکتا۔ ”پولیس نے کہا کہ ہمارا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ move نہ کریں۔

دوسرے دن ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف ایک جلوس نکلنا تھا۔ اس میں مجھے شریک ہونا تھا۔ یہ خبر چھپ چکی تھی۔ میری حالت بہت خراب تھی۔ اس قابل بھی نہیں تھی کہ جلوس میں شامل ہو کرنعرے بازی کر سکوں۔ یہ دور وہ تھا جب ضیاء الحق نے ریفرینڈم کا ڈھونگ رچایا تھا۔ پریس کلب میں ایک جلسہ تھا۔ وہاں میں نے ریفرینڈم پر یہ نظم سنائی تھی:

ریفرینڈم

شہر میں ہُو کا عالم تھا

جن تھا یا ریفرینڈم تھا

مرحومین شریک ہوئے

سچائی کا چہلم تھا

پریس کلب سے جالب صاحب کی قربت معمولی نہ تھی۔ ان کی ذات پریس کلب کے اراکین میں اور عہدیداروں کے لیے انتہائی محترم تھی۔

جالب صاحب کی سالگرہ کا جشن بھی کراچی پریس کلب میں منایا گیا تھا۔ یہ ضیاء دور کی بات ہے۔ اس دور میں ان کی سالگرہ کے جشن میں غلام مصطفٰی شاہ، معراج محمد خان، فتح یاب علی خان، اور غلام مصطفیٰ جتوئی سمیت بہت سارے سیاستدان شریک ہوئے۔ پولیس شرکاء کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھے ہوئے تھی اور سیاستدانوں کو گرفتار بھی کرنا چاہتی تھی۔

اس جشن کی نظامت کے فرائض نام ور کمپیئر، اداکار اور سیاسی کارکن طارق عزیز کو کرنا تھی۔ طارق عزیز کی سیاسی قربانیاں اپنی جگہ لیکن جب ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا تو ان کی ہمدردیاں ضیاء الحق کے ساتھ ہوگئی تھیں۔ حبیب جالب کے بقول:

”میری اس سالگرہ کی تقریب میں ہی معروف کمپیئر اور اداکار طارق عزیز کا واقعہ ہوا تھا۔ طارق عزیز کا بھٹو صاحب سے تعارف میں نے ہی کروایا تھا۔ ضیاء الحق آیا تو وہ اس کے ساتھ ہو گئے۔ ان کی یہ شہرت ہوگئی تھی کہ ضیاء الحق نے ان کو ”مبلغ اسلام“ کا خطاب دیا تھا لیکن میں اسے پسند کرتا تھا کیوں کہ وہ کافی ہاؤس میں بیٹھنے والا میرا پرانا یار تھا۔ اچھا شاعر بھی ہے۔ اس کے آنے پر ہم سب خوش تھے کہ فلم میں جو کچھ میں نے لکھا ہے اس پر گفتگو کرے گا۔

"جب ان کی باری آئی تو لوگوں نے کہا کہ ہم اس کو نہیں سنتے۔ لوگ پر جوش نعرے لگانے لگے اور شور مچایا۔ میں نے مائیک پر آکر ہاتھ جوڑ کر کہا کہ یہ ادھر سے ادھر آگئے ہیں توانہیں قبول کیا جائے۔ یہ ہمارے حق میں ہی بات کریں گے۔ ان کی بات سنیں۔ عبدالحمید چھاپرا نے بھی لوگوں کو روکا لیکن لوگ نہیں رکے۔ میں نے غلام مصطفیٰ جتوئی کے کان میں کہا کہ اسے بچائیں۔ انہوں نے کہا کہ ”میں عوام کی عدالت میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ میں بھی اب کچھ نہیں کر سکتا“۔ چنانچہ لوگوں نے طارق عزیزکو نہیں سنا اور ہم نے انہیں پچھلے کمرے میں بٹھا دیا۔"

خیر یہ تو تھی کراچی پریس کلب میں ہونے والے چند واقعات کی داستان۔ اب ہم یہاں پریس کلب میں ہونے والے حالیہ مشاعرے کا احوال آپ کی نذر کرتے ہیں۔ خطبہء استقبالیہ پریس کلب کے سیکریٹری اے ایچ خانزادہ نے پیش کیا۔ انہوں نے شعراء کو خوش آمدید کہا۔ خانزادہ صاحب کی شعری خاصیت یہ ہے کہ وہ دو لسانی یعنی ایک مصرعہ سندھی اور دوسرا اردو میں لکھتے ہیں۔ انہوں نے ایسی ہی ایک غزل اپنے سننے والوں کی خدمت میں پیش کی۔

”چُرا مسجد سے مت چپل،

اڑے بُدھ مُڑس ماڑھوں تھی

یہ کہتا ہوں تجھ سے پل پل،

اڑے بُدھ مُڑس ماڑھوں تھی“

ان کے بعد کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف شاعرہ عنبرین حسیب عنبر نے اپنی غزل سنائی:

”کوئی شکوہ ہو شکایت ہو مگر اپنا ہے

تپتے صحرا میں یہی ایک شجر اپنا ہے“

ان کی اس غزل کو سامعین محفل نے بہت سراہا اور داد دی۔ ان کے بعد کراچی پریس کلب کے روح رواں اور موجودہ صدر اور ممتاز و معروف شاعر جناب فاضل جمیلی جو کہ پاکستان کے علاوہ مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں اور ان کی شاعرانہ خوبصورتی کی داد بھی دی گئی ہے۔

فاضل جمیلی اپنے انداز میں ایک منفرد شاعر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا کلام سننے کے لیے انہیں بارہا منتیں کرنی پڑتی ہیں۔ حالانکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ کسی شاعر سے آپ نے کلام سنانے کی فرمائش کی اور وہ کوئی دیر کیے بغیر دیوان کے دیوان سنا دیتا ہے۔ ان کی کم گوئی ہی ان کی شاعرانہ خوبصورتی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ انہوں نے اپنا مقبول کلام حاضرینِ محفل کے سامنے پیش کیا۔

”داستانوں میں ملے تھے، داستاں رہ جائیں گے

عمر بوڑھی ہو تو ہو، ہم نوجواں رہ جائیں گے

شام ہوتے ہی گھروں کو لوٹ جانا ہے ہمیں

ساحلوں پر صرف قدموں کے نشاں رہ جائیں گے

ہم کسی کے دل میں رہنا چاہتے تھے اس طرح

جس طرح اب گفتگو کے درمیاں رہ جائیں گے“

ان کی غزل کو سامعین نے خوب سراہا اور ان کو خوب داد دی۔ ان کے بعد ملک کے جانے پہچانے شاعر عنایت علی خاں صاحب نے اپنی غزل کے چند اشعار سنا کر مشاعرے کے سامعین کو محظوظ کیا۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ بائیں بازو کے معروف دانشور اور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کے بھائی ہیں۔ دونوں کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

”آہ کھینچے نہ کوئی سینہ فگار آج کے دن

زخمِ دل بھی نہ کرے کوئی شمار آج کے دن

آج پھر کرتے ہیں تجدیدِ تمنائے بہار

کہتے ہیں کہ آئی تھی گلشن میں بہار آج کے دن“

اس غزل کے بعد انہوں نے ایک غزل تشکیلِ پاکستان کے پس منظر کے حوالے سے سنائی:

”حوصلے پست تھے فاصلہ دیکھ کر

فاصلے مٹ گئے حوصلہ دیکھ کر

فصلِ گل آتے آتے کہاں رہ گئی

دور تک آئی بادِ صبا دیکھ کر

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر“

اس غزل کو سامعین نے خوب داد دی اور ان سے چند دوسرے اشعار کی فرمائش کی توانہوں نے ”جمہوریت کی فریاد“ کے عنوان سے نظم سنا کر حاضرینِ محفل سے اجازت چاہی:

”موت کی وادی میں بابا کھو گئے

میں نگوڑی کے مقدر سو گئے

انکلوں کے وارے نیارے ہوگئے“

عنایت علی خاں صاحب کے بعد معروف شاعر اعجاز رحمانی نے بھی اپنے مخصوص انداز میں غزل سنا کر سامعین کے دل موہ لیے:

”وہ آئینے کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے

کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے

برائے نام بھی جس کو وفا نہیں آتی

وہ سب کو اپنی وفا کی مثال دیتا ہے“

ان کے بعد ایک اور معروف شاعر خالد معین نے اپنا کلام پیش کیا:

”ہمارے خواب ذرا سے بھی معتبر ٹھہرے

تو اے نگارِ وطن تیرے بام پر ٹھہرے“

خالد معین کے بعد ممتاز و معروف شاعر و کالم نگار امجد اسلام امجد صاحب نے اپنی شاعری سے ماحول کو پر جوش کیا اور خوب داد سمیٹی:

”وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں

دلِ بے خبر میری بات سُن، اسے بھول جا اسے بھول جا“

اس غزل کے بعد انہوں نے نوجوان نسل کے حوالے سے ایک نظم ”علی ذیشان کے لیے ایک نظم“ کے عنوان سے سنائی:

”میرے بیٹے نے آنکھیں، اک نئی دنیا میں کھولی ہیں

اُسے وہ خواب کیسے دوں؟

جنھیں تعبیر کرنے میں

میری یہ عمر گزری ہے“

امجد اسلام امجد کے بعد ایک اور نامور شاعرہ کشور ناہید صاحبہ اسٹیج پر آئیں اور اپنا کلام پیش کرنے سے پہلے اپنی کچھ یادیں اور باتیں حاضرینِ محفل کی خدمت میں پیش کیں: انہوں نے بتایا کہ آج انہیں دو عورتیں بہت یاد آرہی ہیں، ایک پروین رحمان اور دوسری سبین محمود۔ چاہے مشاعرہ ہو یا نشست ہو یا پھر گفتگو ہو، سبین کسی بات میں کم نہیں تھیں۔ اور پروین رحمان نے جو کام کیا تھا وہ کاش کہ دوسری عورتیں بھی ایسا کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ دیر بالا ہو یا بنوں، آج بھی 2015 میں عورتوں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا جاتا۔ ہماری برادری جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں، وہ خاموش رہتی ہے۔ آج سے سات برس پہلے سوات میں لڑکیوں کے 240 اسکول گرائے گئے۔ ان اسکولوں میں ایک اسکول ایسا تھا جسے لڑکیوں نے صاف کیا اور اپنا بستہ لے کر بیٹھ گئیں۔ ان بچیوں میں ملالہ بھی شامل تھی۔ میں نے جب وہاں کی بچیوں سے پوچھا کہ اب تو آپ کا اسکول گرا دیا گیا ہے۔ اب آپ کیا کروگی؟ سب لڑکیوں نے یک زباں ہو کر کہا کہ ہم پڑھیں گے، ہم پڑھیں گے۔ اس کے بعد میں نے یہ نظم لکھی اور آج پیش کر رہی ہوں۔

”وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے

وہ جو علم سے بھی گریز پا

کریں ذکر رب کریم کا

وہ جو حکم دیتا ہے علم کا

کریں اس کے حکم سے ماورا یہ منادیاں

نہ کتاب ہے کسی ہاتھ میں

نہ ہی انگلیوں میں قلم رہے

کوئی نام لکھنے کی جا نہ ہو

نہ ہو رسمِ اسمِ گراں کوئی

وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے“

آخر میں کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی، سیکریٹری اے ایچ خانزادہ اور گورننگ باڈی کے اراکین نے مشاعرے کے شرکاء کو یادگاری شیلڈ پیش کی۔

— تصاویر بشکریہ اختر بلوچ

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔