11 سابق کرکٹرز جو ٹی20 کے لیجنڈ ہوتے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے دنیا کے چند بہترین کرکٹر پیدا کیے ہیں۔ ان میں سے کئی کھلاڑی ٹی 20 فارمیٹ شروع ہونے سے پہلے ہی کرکٹ کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ ٹی 20 فارمیٹ ہماری قوم کے کھیل کے مزاج کے عین مطابق ہے۔
ذیل میں ان 11 سابق کھلاڑیوں کی فہرست ہے جو مختصر فارمیٹ کے اس کھیل میں زبردست کارکردگی دکھا سکتے تھے۔
1: سعید انور
پاکستان کے پیدا کردہ نفیس ترین اوپنرز میں سے ایک سعید انور بھی ہیں۔ بائیں بازو کے بلے باز نہایت برق رفتاری سے رن بنایا کرتے اور ٹی 20 طرز کی کرکٹ تب سے کھیل رہے تھے جب یہ فارمیٹ متعارف بھی نہیں کروایا گیا تھا۔ بہترین ٹائمنگ رکھنے والے سعید انور میڈیم فاسٹ اور اسپنرز کے خلاف زیادہ جارحانہ تھے اور اگر آج کرکٹ میں ہوتے تو بہترین ٹی 20 اوپنر ہوتے۔
|
2: عامر سہیل
انور کا بہترین پارٹنر عامر سہیل کے علاوہ کون ہو سکتا ہے؟ بھلے ہی عامر سہیل اپنے پارٹنر جتنے بہترین بلے باز نہ تھے لیکن اپنے عروج کے دور میں وہ اتنی ہی تیزی سے رن بنا سکتے اور وکٹ کا دفاع اتنی ہی مضبوطی سے کر سکتے تھے۔ سہیل کی جارحیت، جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھی مشکلات کا شکار ہوتے، ٹی 20 فارمیٹ کے لیے بہترین تھی۔ اس کے علاوہ لیفٹ آرم فنگر اسپن کروانے والے یہ باؤلر ٹیم کے لیے نہایت کارآمد ہوتے۔
3: اعجاز احمد
میں نے آج تک ان سے زیادہ عجیب بیٹنگ تکنیک کسی کی نہیں دیکھی، جس کے لیے انہیں کلہاڑی والا اور سیالکوٹ کا قصائی کہا جاتا تھا۔ اعجاز نہ صرف ایک زبردست بلے باز تھے بلکہ ایک بہترین فیلڈر بھی تھے۔ جب وہ وکٹ کے سامنے ہوتے تو تیز ترین بال بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح ورلڈ سیریز کپ میں ان کے کم اونچائی والے چھکوں نے آسٹریلیا کا بھرکس نکال دیا تھا۔ اعجاز بائیں بازو کے فاسٹ باؤلر بھی تھے اور یہاں پر ان کی تکنیک ان کی بیٹنگ سے بھی زیادہ عجیب تھی۔ اعجاز نے محدود اوورز فارمیٹ میں 80 سے زیادہ کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 10 سنچریاں بنائیں۔ یہ کارکردگی انہیں ٹی 20 میں زبردست شہرت اور کامیابی دلواتی۔
|
4: ظہیر عباس
ظہیر عباس ایک نفیس بلے باز تھے اور پہلے تین کے بعد انہیں چوتھے نمبر پر رکھنا بالکل درست رہے گا۔ ایشین بریڈمین ہر طرح سے ایک بہترین بلے باز تھے، لیکن وہ سلو باؤلرز کے لیے بھی تباہ کن تھے جو ٹی 20 نمبر چار کھلاڑی کے لیے ایک زبردست خاصیت ہے۔ محدود اوورز کے فارمیٹ میں ان کی بیٹنگ اوسط 47.62 تھی۔ 70 کی دہائی میں جہاں زیادہ تر بلے باز کچھوے کی رفتار سے رن بناتے، وہاں ظہیر عباس کا اسٹرائیک ریٹ 84.80 تھا۔
5: جاوید میانداد
محدود اوورز کے فارمیٹ میں پاکستان نے آج تک ان سے بہتر کوئی بلے باز پیدا نہیں کیا۔ ان کی طاقت ان کے کٹ شاٹس، نت نئے ریورس سوئیپ، جارحانہ رنز، اور بہترین توجہ تھی۔ ٹی 20 گیمز بسا اوقات آخری گیند تک چلتے ہیں اور میچ ختم کرنے کے لیے جاوید میانداد سے بہتر شخص کوئی نہ ہوتا۔
6: مشتاق محمد
عمران خان کے آنے سے پہلے تک مشتاق محمد کو پاکستان کا بہترین آل راؤنڈر اور عبدالحفیظ کاردار کے بعد کا بہترین کپتان تسلیم کیا جاتا تھا۔ مشتاق ایک اچھے بلے باز تھے اور کبھی کبھار غیر روایتی شاٹس کھیلا کرتے، اور وہ آسانی سے ٹی 20 ٹیم میں اوپر اور نیچے جگہ بنا سکتے تھے۔ ان کی لیگ اسپن بہت خطرناک تھی اور انہوں نے 70 کی دہائی کے اواخر میں ویسٹ انڈیز کو ہوم گراؤنڈ پر شکست دے کر یہ بات ثابت کی۔ اگر وہ ٹی 20 ٹیم میں ہوتے تو ایک انمول اثاثہ ہوتے۔
|
7: عمران خان
اس ٹی 20 ٹیم کے کپتان عمران خان نمبر 7 پر کھیلنے والے ایک بہترین بلے باز ہوتے۔ ایک مضبوط تکنیک اور اس سے زیادہ مضبوط قوتِ فیصلہ کے ساتھ وہ آسانی سے ایک مشکل صورتحال کو قابو میں کر لیتے تھے، اور کسی بھی باؤلنگ اٹیک کو اپنی جارحانہ بلے بازی سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ باؤلر کے طور پر عمران خان نہ صرف تیز تھے بلکہ سوئنگ بھی کروا سکتے تھے۔ ان کے پاس یارکر جیسا خطرناک ہتھیار تھا جو ٹی 20 فارمیٹ میں نہایت اہم ہے۔
8: معین خان
ہم کچھ زیادہ ہی خوش قسمت تھے کہ ہمیں ایک ہی دور میں دو عالمی پائے کے وکٹ کیپر معین خان اور راشد لطیف ملے (اور شاید اسی وجہ سے ہمارے پاس بعد میں صرف اکمل برادران ہی بچے)۔ معین خان اور راشد لطیف دونوں ہی بہترین ٹی 20 کھلاڑی ثابت ہوتے لیکن نسبتاً کمتر وکٹ کیپر معین خان کو اپنی دھواں دھار بیٹنگ کی وجہ سے فائدہ ہوتا۔ مشکل حالات میں بھی پریشان نہ ہونے والے خان نے پاکستان کے لیے کئی چھکے لگائے لیکن پاکستانی شائقین کو نیوزی لینڈ کے خلاف 1992 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں لگائی گئی ہٹ آج تک یاد ہے۔
1999 کے ورلڈ کپ میں انہوں نے ایلن ڈونلڈ اور گلین میک گرا کی بھی چھکوں سے تواضع کی، ویسے ہی شاٹس جو سرفراز احمد اب انتہائی مہارت سے کھیلتے ہیں۔
|
9: وسیم اکرم
یہ ایک انتہائی ذہین کھلاڑی تھے اور ٹی 20 کے بھی سلطان ہوتے، اور انہیں کسی بھی ٹی 20 لیگ میں سب سے زیادہ سائن کیا جاتا۔ اکرم نے اپنا کریئر تب شروع کیا جب بال کی رفتار جاننے کے لیے اسپیڈ گنز استعمال نہیں کی جاتی تھیں ورنہ وہ دوسرے فاسٹ باؤلرز کی طرح ہی تیز باؤلنگ کرواتے تھے۔ ایک ایسے فاسٹ باؤلر کے طور پر جو بال کو دونوں جانب سوئنگ کروا سکتا، اور چھوٹے رن اپ کے ساتھ چت کر دینے والی باؤنسر اور دھجیاں اڑا دینے والی یارکرز کرواتا تھا، وہ بلاشبہ ٹی 20 میچ کا ستارہ ہوتے۔ بہت کم ہی بلے باز وسیم اکرم کو اچھی طرح کھیل پائے ورنہ انتہائی کم رنز دینے کی ان کی قابلیت اس فارمیٹ میں انمول ہوتی۔ اس کے علاوہ وہ اتنے ہی اچھے بلے باز تھے جو ٹی 20 میچ میں آخر میں آنے والے بلے باز کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
10: ثقلین مشتاق
جب تک ثقلین مشتاق نہیں آئے تھے، تب تک صرف چند ہی باؤلرز محدود اوورز کے کھیل کے آخری مراحل میں باؤلنگ کروانے کی ہمت کر پاتے تھے۔ ثقلین نہ صرف بلے بازوں کو کم رنز تک محدود کر سکتے تھے، بلکہ دھڑا دھڑ وکٹیں بھی گراتے تھے۔ ان کے 'دوسرا' نے انہیں ٹی 20 فارمیٹ میں منفرد و بے مثال بنا دیا تھا خاص طور پر تب جب وہ آئی سی سی کے کریک ڈاؤن کے بعد کلین ایکشن والے واحد باؤلر تھے۔
11: وقار یونس
بچپن میں وقار یونس میرے پسندیدہ کھلاڑی تھے۔ ان کے عروج میں مارشل، للی، اختر، اور اکرم، کوئی بھی باؤلر ان سے بہتر نہیں تھا۔
نہ صرف وقار یونس 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز باؤلنگ کروا سکتے تھے، بلکہ وہ بال کو کیلے کی طرح سوئنگ بھی کروا سکتے تھے جس سے اسے کھیلنا ناممکن ہوجاتا۔ ان کا اسٹرائیک ریٹ بھی دوسرے باؤلرز سے کہیں زیادہ تھا۔ وسیم اکرم ٹاپ آرڈر کی دھجیاں اڑا سکتے تھے مگر وقار مڈل اور لوئر آرڈر کو بھی تہس نہس کر دیتے جس سے بسا اوقات جادوئی محسوس ہونے والی فتح ٹیم کے حصے میں آتی۔
|
نعمان انصاری فری لانس لکھاری ہیں اور کئی اشاعتوں، بشمول امیجز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل اپنے فینٹیسی ناول پر کام کر رہے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @pugnate
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔